رمضان صبرکامہینہ(حصہ اوّل)

(حصہ اوّل)
الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ کاایک اہم ملفوظ
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ نے فرمایاکہ
’’{ صبرعن الشہوۃ} گوفی نفسہٖ دُشوارہے،مگرآدمی جب اس کاارادہ کرتاہے توآسانی شروع ہوجاتی ہے،حتی کہ پھرکبھی دُشواری نہیں رہتی۔ایک بات یہ بھی یادرکھنے کی ہے کہ شہوت عورتوں کے تعلق ہی میں منحصرنہیں،بلکہ لذیذغذاؤں کی فکرمیں رہنابھی شہوت ہے،عمدہ لباس کی دُھن میں رہنابھی شہوت ہے،ہروقت باتیں بگھارنے کی عادت بھی شہوت ہے،ان باتوں سے نفس کوروکنابھی { صبرعن الشہوۃ} میں داخل ہے،آج کل لوگوں کوباتیں بنانے کامرض ہے،بس جہاںکام سے فارغ ہوئے،مجلس آرائی کرکے فضول باتیں کرنے لگے،میں صرف عوام کی شکایت نہیں کرتابلکہ میں علماء اورمشایخ کوبھی مجلس آرائی سے منع کرتا ہوں،کیونکہ یہ مرض ان میں بھی بہت ہے۔‘‘
حضرت والاکی مذکورہ بالابات رمضان کے مہینے سے اس حوالے سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے کہ اس مہینے کوحضورِاقدس ،نبی کریم ،سرورِدوعالم ﷺنے {شھر الصبر} قراردیاہے،یعنی اس ماہ کوصبرکی ٹریننگ دینے کیلئے منتخب فرمایا۔
صبرکے عظیم الشان فوائد
قرآنِ کریم میں صبرکی جگہ جگہ تاکیدکی گئی ہے،اس کے عظیم الشان فوائداور عالیشان اجروثواب بھی بیان فرمایاہے،فرمایا:
{یٰـٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (آل عمران:۲۰۰ )
دوسری جگہ فرمایا:
{یٰـٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ} (البقرۃ: ۱۵۳)
اسی طرح اہلِ جنت کوجنت کی نعمتوں سے سرفرازفرمایاجائے گا،اس کی وجہ بھی صبربیان فرمائی:
{وَجَزَاہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا} (الدھر: ۱۲)
صبرایک بنیادی صفت ہے جواللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نیک بندوں میں دیکھنا چاہتے ہیںاوراسی پراجروثواب کاترتب ہوتاہے،فرمایا:
{إِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ} (الزمر: ۱۰)
جولوگ صبرکے عادی ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ ان کوان کااجربے حساب عطافرمائے گا۔
صبرکامطلب
صبرکی کچھ تفصیل سمجھنے کی ضرورت ہے،جب ہم اُردومیں صبرکالفظ بولتے ہیں توعام طورپراس کایہ مطلب لیاجاتاہے کہ کسی کوکوئی تکلیف پہنچی تواس نے اس پرجزع فزع نہیں کیااورصبرکیا،جبکہ شریعت نے جس صبرکاحکم فرمایاہے وہ بڑی عظیم چیزہے، صبرکے لفظی معنی ہیں: کسی چیزکوباندھ کررکھنا۔شریعت میں صبرکہاجاتاہے
{حَبْسُ النَّفْسِ عَلٰی مَا یَکْرَہُ}
یعنی اپنے نفس کوقابومیںرکھناکہ یہ اپنی حدسے تجاوزنہ کرے۔اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگرطاعات میں سستی ہورہی ہے تواس سستی کامقابلہ کرکے اس عبادت کوانجام دیاجائے۔رات کونیندآرہی ہے یاصبح کے وقت نیندآرہی ہے،سردی کاموسم ہے،لحاف میں لیٹے ہوئے ہیں،اُٹھنے کودل نہیں چاہ رہا،لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی خاطراپنے نفس کی خواہش کوپامال کیااوراپنے نفس کوقابوکیا،یہ صبرہے۔
اس سے زیادہ اہم اورقدرے مشکل صبریہ ہے کہ کسی گناہ سے اپنے آپ کوبچایا جائے،اس کو{صبرعن المعصیۃ}کہتے ہیں،دل میں کسی گناہ کاشدید تقاضا پیدا ہورہاہے،اس وقت نفس کو قابوکرنااور اس گناہ سے اپنے آپ کو بچانابڑا زبردست صبرہے۔
اورتیسری قسم وہی ہے جوعوام میں مشہورہے یعنی {صبرعلی المصیبۃ} کہ کسی مصیبت اورتکلیف پرانسان جزع فزع اوراللہ تبارک وتعالیٰ سے شکوہ نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیرپررضامندی کااظہارکرے اوراللہ تعالیٰ کے فیصلے پر عقلاًراضی رہے۔
گناہوں سے بچناانسان کی فضیلت اورکمال کادرجہ
حضرت والاؒکاملفوظ{صبرعن المعصیۃ} کے بارے میں ہے، گناہوں سے بچنادرحقیقت انسان کی فضیلت اورکمال کادرجہ ہے۔اس لئے کہ عبادات خواہ فرائض میں سے ہوں یانوافل میں سے،الحمدللہ ! مسلمانوں کوکچھ نہ کچھ اس کی توفیق ہوہی جاتی ہے،اوراللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ توفیق بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ رمضان المبارک کے آنے سے عبادات میں اضافہ ہوجاتاہے،اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس توفیق میں برکت عطافرمائے اوراس میں اورزیادہ ترقی عطافرمائے۔
لیکن یہ کام نسبتاًآسان ہیں،کیونکہ اس میں آدمی تھوڑی مدّت مثلاًایک ماہ یادس دن کیلئے اپنے نفس کوقائل کرلیتاہے کہ کچھ ہی دن کی بات ہے،کوئی لمباچوڑا معاملہ نہیں ہے،اس لئے نفس بھی خوش ہوجاتاہے،اوراس مختصرمدّت میں یہ کام کرنے میں کوئی لمباچوڑامجاہدہ نہیں کرناپڑتا،لیکن انسان کاحقیقی امتحان یہ ہے کہ جب دل کسی گناہ کیلئے مچل رہاہو،اس وقت اپنے نفس کی خواہش کوکچل کراللہ تبارک وتعالیٰ کی خاطراپنے نفس کوقابومیں کرے اوراپنے آپ کوگناہ سے بچائے،یہ{صبرعن المعصیۃ} ہے جس کوحضرت والانے یہاں پر{صبرعن الشھوۃ} سے تعبیر فرمایاہے،شہوت کے معنی ہیں دل کی خواہش،خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو۔
اس{صبرعن المعصیۃ} کی جزاکے بارے میں قرآن کریم میں فرمایاکہ :
{وَجَزَاہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا} (الدھر: ۱۲)
یعنی ان لوگوں کے گناہوں سے رُک جانے کی وجہ سے ہم نے ان کوجنت عطا کی۔ اپنے آپ کوغلط جگہ نظرڈالنے سے بچانا،حسد،غیبت اوربغض سے بچانا،یہ {صبرعن المعصیۃ} ہے،اصل چیزیہ ہے کہ رمضان ہویاغیررمضان ،اپنے آنکھ، کان اورزبان کی حفاظت ضروری ہے کہ ان سے کوئی غلط بات صادرنہ ہو۔
رمضان المبارک صبرکی تربیت کامہینہ
حدیث میں نبیِ کریم ﷺنے فرمایاکہ یہ مہینہ {شھرالصبر}ہے، یعنی یہ مہینہ اللہ تعالیٰ نے صبرکی تربیت دینے کیلئے مقررفرمایاہے،اوراندازِتربیت ایساہے کہ اگراس کی حقیقت سمجھی جائے توپوری زندگی کیلئے صبرکاراستہ آسان ہوجاتاہے کہ بھوک لگے توکھانامت کھاؤ،پیاس لگے توپانی مت پئواورمیاں بیوی کے تعلقات جوجائزاور حلال ہیں،ان کوبھی دن کے وقت میںترک کردو۔
نمازوغیرہ جیسی عبادات میں بھی صبرہے کہ آدمی سب کام چھوڑکرنمازمیں لگا ہوا ہے، لیکن یہ صبرپانچ ،دس یاپندرہ منٹ کاہے جبکہ روزہ میں صبح سے لیکررات تک صبر کرنا ہے۔
جب آدمی ارادہ کرتاہے تواللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق بھی ہوجاتی ہے،وہ کام آسان ہوجاتاہے،دیکھئے ! اگرکوئی روزے دارکویہ کہے کہ مجھے تمہارے ہونٹ خشک دِکھائی دے رہے ہیں،ایسالگتاہے کہ تمہیں شدیدپیاس لگی ہوئی ہے،یہ پانی کا ایک گلاس لواورپی لو،کوئی شخص دیکھنے والانہیں ہے،اس پانی کے پینے میں تمہیں ایک لاکھ روپے بھی دوں گا،کوئی مسلمان بھی اس کوپیناگوارانہیں کرے گا۔
البانیہ ،یورپ کاشایدواحدملک ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے،ایک زمانے میں وہاں پرکمیونزم کاغلبہ تھا،یوں توکمیونزم نے اہلِ دین کے ساتھ ہرجگہ ہی بڑی زیادتی کی،لیکن البانیہ میں مسلمانوں کے خلاف جس بربریت کامظاہرہ ہواہے، شاید دنیامیںاورکہیں نہ ہواہوگا،جب میں وہاں گیاتولوگوں نے بتایاکہ کمیونزم کے زمانے میں نمازپڑھناجرم تھااوراس کی سزاموت تھی،روزہ رکھناجرم تھا،رمضان کی راتوں میں آخر شب میں وہاں کے پولیس والے یہ دیکھتے پھرتے تھے کہ کس گھرمیں بتی جل رہی ہے، اگرکسی کے گھرمیں بتی جل رہی ہوتی تویہ سمجھاجاتاکہ وہ سحری کھانے کیلئے اُٹھاہے اورروزہ رکھے گا،لہٰذاپورے کے پورے گھرکوتباہ کردیاجاتاتھا اوراگرکسی کے بارے میں پتہ لگ گیاکہ اس نے روزہ رکھاہے توپولیس اس کو گرفتار کرکے لیجاتی اورزبردستی شراب اورخنزیرسے اس کاروزہ تڑوایاجاتا،لیکن اس تمام ترظلم و جبرکے باوجودمسلمانوں نے روزہ رکھنانہیں چھوڑااورایسے لوگ بھی تھے کہ ان کے سامنے موت ناچ رہی تھی لیکن انہوں نے پھربھی روزہ نہیں توڑا۔بات وہی ہے کہ جب ایک مسلمان روزہ رکھ لیتاہے توکیساہی فاسق وفاجرہو،وہ روزہ پوراکرتاہے،یہی اپنے نفس کو روکناہے جس کو صبرکہتے ہیں اورروزے کے ذریعے روزانہ نفس کی خواہشات کوکچلاجارہاہے یہ درحقیقت صبرکی ٹریننگ دی جارہی ہے کہ اس صبرکواپنی زندگی کی تگ ودَومیں مشعلِ راہ بناؤ۔ فرمایا:
{یٰٓـأَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}(البقرۃ: ۱۸۳)
روزے رکھوانے کامقصدتقویٰ کاحصول ہے، اس لئے رمضان المبارک میں گھر سے نکلتے وقت انسان کوسوچناچاہئے کہ میں نے صبرکیاہواہے لہٰذامیں اپنے نفس کی خواہش کوبے مہارچھوڑکراس کے پیچھے نہیں چلوں گا،نفس کی ناجائزخواہش کواللہ کی خاطرکچل دوں گا۔
نفلی عبادات اورترک ِگناہ
نفلی عبادات اپنی ذات میں بہت اچھی چیزہیں،اللہ تعالیٰ کے تقرب کاذریعہ ہیںاوران سے انسان کے اندرایک قسم کی طاقت بھی پیداہوتی ہے جوگناہوں سے بچنے میں مدددیتی ہے لیکن اگرکوئی شخص ساری زندگی ایک بھی نفلی عبادت نہ کرے اورگناہ سے مکمل بچارہے تووہ کامیاب ہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کاحقدار ہے،اس سے یہ نہیں پوچھاجائے کہ تم نے تہجداوراشراق کیوں نہیں پڑھے؟ چاشت اوراوّابین کیوں نہیں پڑھیں؟اعتکاف کیوں نہیں کیا؟
دوسری طرف کوئی شخص خوب نفلیں پڑھے،تہجداوراشراق کی پابندی کرے، چاشت اوراوّابین قضانہ ہوتی ہو،عمرے اوراعتکاف بھی کرتاہے،لیکن آنکھ کنٹرول میں نہیں ہے،کان اورزبان کنٹرول میں نہیں ہیںتواللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قانون یہ ہے کہ نفلی عبادات اس پرفرض نہیں تھیںلیکن یہ فرض تھاکہ گناہوں سے بچاجائے،تم نے ضروری کام توکیانہیںاورنفلی کاموں میں بڑھ چڑھ کرلگارہا،اس کانتیجہ یہ ہے کہ برائیوں کاپلڑابھاری ہوگااورنفلی عبادات کاوزن ہلکاہوگا،لہٰذااس مہینے میں صبرکی ٹریننگ دی جارہی ہے کہ اپنے آپ کوہراس گناہ سے بچاؤجواللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والاہے۔
ارادہ اورہمت سے کام آسان ہوجاتے ہیں
حضرت والاؒفرماتے ہیں کہ {صبرعن الشہوۃ} شروع میں بہت دُشوار ہوتا ہے،مثلاًکسی کوکسی ناجائزچیزسے لذّت لینے کی عادت پڑی ہوئی ہے اوروہ کام کئے بغیراس کوچین ہی نہیں آتا،ہزارکوشش کے باوجودوہ اس سے اپنے آپ کونہیں بچاپاتا، دل میں اس برائی کااحساس بھی ہے لیکن اس سے بچنے میں اپنے آپ کو کمزور پاتاہے۔
یہ وہ بات ہے کہ ہم میں سے شایدہی کوئی اس سے مستثنٰی ہو الا ماشاء اللہ،کسی نہ کسی گناہ میں آدمی کوایساابتلاء ہوجاتاہے کہ اس کیلئے اس سے بچنابہت دُشوارہوجاتا ہے،ایسالگتاہے جیسے بس سے باہرہو۔خوب سمجھ لوکہ بس سے باہرنہیں ہوتا،البتہ ہمت کمزورہوتی ہے،اس کیوجہ سے ایسالگتاہے جیسے میرے بس سے باہرہے،لیکن جب آدمی اس دُشواری پراللہ تعالیٰ کی خاطرقابوپانے کیلئے اپنے نفس پرزبردستی کرتاہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ،میں نفس کواس گناہ کی لذّت حاصل کرنے نہیں دوں گا،جب انسان ہمت سے اس چیزکاارادہ کرتاہے تواللہ تعالیٰ اس کوآسان سے آسان تر فرماتے چلے جاتے ہیں۔
یہ مت سمجھناکہ حضرات ِانبیاء کرام علیہم السلام چونکہ ہرگناہ سے معصوم ہوتے ہیں،لہٰذاان کے دلوں میں کسی گناہ کاخیال بھی نہیں آتا،بلکہ بڑوں بڑوں کوخیالات آجاتے ہیں جیسے قرآن کریم میں فرمایا:
{وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ أَنْ رَاٰی بُرْہَانَ رَبِّہٖ}
(یوسف: ۲۴)
یوسف علیہ السلام کے دل میں کچھ خیال ہوچلاتھالیکن اس کواپنی ہمت اورحوصلے سے اورساتھ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا۔
{وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَہُنَّ أَصْبُ إِلَیْہِنَّ وَأَکُنْ مِّنَ
الْجٰہِلِیْنَ}(یوسف: ۳۳)
اے اللہ ! اگرآپ ان عورتوں کے مکرسے مجھے نہیں ہٹائیں گے تومیرادل ان کی طرف مائل ہوجائے گااورمیں بھی نادان لوگوں میں سے
ہوجاؤں گا۔
ارادہ اورہمت کے ساتھ رجوع الی اللہ بھی ضروری ہے
ایک طرف توہمت کامظاہرہ کرکے اپنے نفس کوروکااوردوسری طرف اللہ تعالیٰ سے مددمانگی،جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بچالیا،حضرت فرماتے ہیں کہ شروع میں {صبرعن الشہوۃ} دُشوارہوتاہے،لیکن جوں جوں آدمی اپنے اُوپر زبردستی کئے جاتا ہے تواتناہی آسانی ہوتی چلی جاتی ہے،جب آدمی کوئی گناہ چھوڑنا چاہتاہے توشروع میں آدمی اورنفس کی کشتی ہوتی ہے،نفس کہتاہے کہ یہ کام کرو،اس میں بڑی لذّت ہے، بڑا مزہ ہے،جبکہ دین وشریعت اس سے روک رہے ہوتے ہیں،اس کشتی کے شروع میں نفس غالب آجاتاہے،لیکن آدمی اگرہمت نہ ہارے اورمایوس نہ ہو،اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتارہے توایک نہ ایک دن ضرورنفس پرغلبہ حاصل ہوجائے گا۔
توعلاج یہی ہے کہ جتنااپنے نفس پرزبردستی کرتے جاؤگے،اس کے اندراتنی ہی طاقت اورہمت بڑھتی چلی جائے گی۔ہمت چیزہی ایسی ہے کہ انسان اس کو جتنااستعمال کرے اس میں اتناہی اضافہ ہوتاچلاجاتاہے۔خواہشِ نفس کواللہ کی خاطر کچلنایہ بڑی لذّت کی چیزہے،جب آدمی یہ تصور کرتا ہے کہ میں اپنے نفس کواپنے محبوب ِحقیقی کی وجہ سے کچل رہاہوں ؎
وَ ذَاکَ فِی ذَاتِ الْاِلٰـہِ وَ اِنْ یَشَأْ
یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ
توانسان کے اندرایک عجیب حلاوت اورلذت پیداکرتاہے،جس کے آگے گناہ کی لذت ہیچ درہیچ ہے۔
خلاصہ یہ کہ کبھی کبھی انسان کویہ خیال ہونے لگتاہے کہ میں فلاں فلاں گناہ کا عادی ہوں،جس کاچھوڑنابالکل ناممکن نظرآرہاہے،اس کیوجہ سے مایوسی پھیلتی ہے، یادرکھئے کہ کسی مؤمن کی زندگی میں مایوسی کاکوئی گزرنہیں ہوناچاہئے اورنہ ہی کسی گناہ کوچھوڑناناممکن ہے۔شروع میں کتناہی دُشواری اورپریشانی محسوس ہورہی ہولیکن جب دوچارمرتبہ نفس کے خلاف کروگے توان شاء اللہ اس ارادے اورہمت میں قوت پیداہوتی چلی جائے گی اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اورمددآتی چلی جائے گی۔ اس ماہ کواس تربیت کے نقطۂ نظرسے سوچنااورسمجھناچاہئے،اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسی طرح اس کوگزارنے کی توفیق عطافرمائے۔اس پرنبیِ کریم ﷺنے ایک خوشخبری بھی سنائی ہے کہ :
{ مَنْ سَلِمَ لَہٗ رَمَضَانُ سَلِمَتْ لَہُ السَّنَۃُ }
کہ جس کارمضان سلامتی سے گزرجائے،اس کاسال سلامتی سے گزرے گا۔
اوریہ اس وقت ہوگاکہ رمضان میں یہ نیت کرے کہ میں رمضان میں اپنے آپ کوگناہوں سے بچاؤں گااورنیکیوں کوزیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کروں گاتاکہ صبرکی عادت بن جائے اوروہ رمضان کے بعدکی زندگی میں بھی میرے لئے مشعلِ راہ ہو۔اللہ تبارک اپنے فضل وکرم اوراپنی رحمت سے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین