رمضان اورقرآنِ کریم

الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکراداکرنا چاہئے کہ جس نے فضل و کرم سے ہمیں برکتوں والا اور مقدس رمضان کا مہینہ عطا فرمایا اور روزہ اورتراویح کی توفیق عطافرمائی،اور آج تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل بھی فرمادی ،کسی انسان کے بس میں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے آج کی شب میں ان سب باتوں کو جمع فرما دیا ہے۔
آخری عشرہ کی طاق راتیں عمل کی راتیں ہیں
میرے والد ماجد قدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتیں اور خاص طور سے یہ ستائیسویں شب ،جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شبِ قدر ہونے کا امکان ہے،یہ لمبی چوڑی تقریروں کی راتیں نہیں ہیں،ان کو جلسے جلوسوں اور تقریرات میں خرچ کرنا ان کی ناقدری ہے،ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ان راتوں میںبندہ اپنے اللہ سے رابطہ قائم کرے ،اور اس کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرے کہ بس بندہ ہو اور اس کا اللہ ہو،جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور عمل کیا جائے،کیونکہ یہ عمل کی رات ہے تعلیم کی رات نہیں ہے،اس لئے اس وقت کسی لمبی چوڑی تقریر کا موقع نہیں ہے،لیکن دو باتیں عرض کرنا مقصود ہیں۔
رمضان المبارک میں قرآن سے خصوصی تعلق قائم کریں
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو عام مسلمان اپنے معمولات سے کچھ زیادہ عبادت کی فکرکرتا ہے ،اور الحمد للہ ہر جگہ اس کا مشاہدہ بھی ہوتاہے، نمازوں کی پابندی ہوتی ہے،تلاوت کی بھی کثرت ہوتی ہے اور لوگ نفلی عبادات بھی کثرت سے کرتے ہیں۔
اس مہینے کو قرآنِ کریم سے خاص مناسبت ہے،رسول اللہ ﷺ اس مہینے میں حضرت جبرئیل امین کے ساتھ قرآنِ کریم کا دورفرمایاکرتے تھے ،اسی مناسبت کی ایک جھلک مسلمانوں میں بھی نظر آتی ہے کہ عام دنوں کے مقابلے میں اس مہینہ میں تلاوت کا معمول کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے،لیکن جیسے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوتا ہے قرآنِ کریم سے وہ تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے ،یہ بڑی خطرناک بات ہے ،قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑ ی نعمت ہے کہ جس کے برابر کوئی دوسری نعمت نہیں ہو سکتی ،اس لئے رمضان گزرتے ہی اس کی تلاوت چھوڑ کر اس کو طاق میں سجا دینا اس کی بڑی سخت ناقدری ہے ۔
میرے والد ماجد قدس اللہ سرہ ختم قرآ ن کے موقع پر یہ فرمایا کرتے تھے کہ ختم قرآن کے موقع پرتراویح کی انیسویں رکعت میں ہی {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ} پڑھ کر قرآن مجید مکمل ہو جاتا ہے ،لیکن بیسویں رکعت میں{ الم} سے لے کر آگے تک کچھ آیات پڑھی جاتی ہیں ،یہ درحقیقت سرکارِ دوعالم ﷺ کی تعلیم ہے کہ جس مجلس میں ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کیا جائے اسی مجلس میں دوسرا قرآنِ کریم شروع کر دیا جائے ، میرے والد ماجد قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ قرآنِ کریم ختم کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ زندگیاں قرآن میں ختم کرنی چاہئیں،چنانچہ الحمد للہ بیسویں رکعت میں سب کا ایک اور قرآن کریم شروع ہوجاتا ہے۔
مسلمان پر قرآنِ کریم کے تین حقوق ہیں
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مسلمان پرقرآنِ کریم کے تین حقوق رکھے ہیں:
(۱)۔۔۔ قرآنِ کریم کا پہلا حق
قرآنِ کریم کا پہلا حقیہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے،اور اُسی طرح تلاوت کرنی چاہئے جس طرح حضر ت جبرئیل امین نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کی اور آنحضرت ﷺنے صحابۂ کرامؓکو سکھائی،جب قرآن کریم کا نزول ہو رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ } (القیامۃ: ۱۸)
جب ہم( جبرئیل کے واسطے سے تمہارے سامنے) قرآن پڑھیں تو جس طرح وہ پڑھتے ہیں آپ بھی اسی طرح پڑھیں۔
قرآنِ کریم کو تجوید کے مطابق پڑھیں
اس لئے قرآن مجید کو انہی آداب اور قوانین کے مطابق پڑھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ ﷺکے ذریعہ سے سکھائے ہیں،قرآنِ مجید کو درست پڑھنے کے لئے باقاعدہ تجوید کا علم ہے جس میں قرآنِ مجید کے حروف کو صحیح اداکرنے کا طریقہ سکھایاجاتا ہے،حروف کی صحیح ادائیگی بہت ضروری ہے ،بعض اوقات حروف کی درست ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی،اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآنِ کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا سیکھے،عربی زبان میں کل انتیس حروف ہیں،ان کو صحیح ادا کرنے کا طریقہ سیکھ لیا جائے تو قواعد کے مطابق تلاوت کی جا سکتی ہے، یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے،یہ سیکھنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے اور روزانہ کے معمول میں قرآن کریم کی تلاوت کو شامل کرنا چاہئے۔
کسی دور میں اسلامی معاشرے کا ایک خاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی بستیوں میں فجر کی نماز کے بعد قرآنِ کریم کی تلاوت کی آوازیں گونجا کرتی تھیں،ہر گھر میں بچہ بچہ تلاوت کیا کرتا تھا،لیکن آج افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ماحول نظر نہیں آتا۔
قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کا معمول ہر مسلمان کو بنانا چاہئے،خواہ تھوڑی سی تلاوت ہی کیوں نہ ہو لیکن روزانہ ہونی چاہئے،قرآن کریم میں سات منزلیں ہیں،یہ سات منزلیں اس لئے مقرر کی گئیں تھیں کہ روزانہ ایک منزل پڑھی جائے اور ہر مسلمان سات دن میں قرآن مجید ختم کر لے، یوں ایک مہینے میں چار مرتبہ قرآن کریم تلاوت میں ختم کیا جاتاتھا،یہ عام مسلمانوں کا طریقہ تھا،پھر اس میں کمی آتی چلی گئی تو روزانہ ایک پارہ پڑھنے کا معمول شروع ہو گیا ،یوں تیس دن میں ایک قرآن مجید ختم ہو جاتا تھا،لیکن اب اس کا بھی معمول نہیں رہا، کوشش کریں کہ ایک دن میں ایک پارہ نہ سہی آدھا پارہ ہی تلاوت کر لیا جائے ،وہ بھی نہ ہو سکے تو کم ازکم ایک پاؤ کی تلاوت تو ضرور کرنی چاہئے، ہمارا کوئی دن بھی قرآن کریم کی تلاوت سے خالی نہیں جانا چاہئے۔
قرآن کریم چھوڑنے والوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی شکایت
قرآن کریم کو چھوڑنے کی وجہ سے آج مسلمان دنیا میں ذلیل ہو رہے ہیں، اس دن سے ڈرنا چاہئے جس کو قرآن مجید نے سورۂ فرقان میں بیان فرمایاہے کہ قیامت میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ :
{ وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا }
اور رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے کہ یا رب! میری قوم نے اس قرآن کو پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔
رسول اللہﷺ جو شفیع المذنبین ہیں ،جن کی شفاعت ایک مسلمان کیلئے آخرت میں آخری سہارا ہے،اگر انہوں نے بھی آخرت میں ہمارے بارے میں یہ شکایت اللہ تعالیٰ کی بارگا ہ میںکردی کہ ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ دیاتھا تو پھر ہمارے ٹھکانہ کیا ہوگا؟ اس لئے ہر مسلمان اس بات کا عزم کرے کہ اس کا کوئی دن بھی قرآن کریم کی تلاوت سے خالی نہیں جائے گا۔
(۲)۔۔۔ قرآنِ کریم کا دوسراحق
قرآنِ کریم کا دوسراحق جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد فرمایا ہے یہ ہے کہ ہم اس کتاب کوسمجھیں اور اس سے ہدایت حاصل کریں،اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ہمارے لئے سرچشمۂ ہدایت بنایا ہے،اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںارشاد فرماتے ہیں:
{ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ } (البقرہ: ۲)
یہ کتاب متقی لوگوں کیلئے ہدایت ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ہمارے لئے ہدایت بنایا ہے تو اس کو جزدان میں بندکر کے رکھنا اور اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرنا بھی اس کی حق تلفی ہے ۔
اگر کسی کو اس کا محبوب کسی ایسی زبان میں خط لکھے جس کو وہ سمجھتا نہ ہو تو اس کو اس وقت چین نہیںآئے گا جب تک اس زبان کے سمجھنے والے کے پاس جا کر اس خط کو پڑھوا نہ لے اور یہ پتہ نہ کر لے کہ اس میں کیا لکھا ہے،کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے محبوب کے خط کو طاق میں سجاکر رکھ د ے اور اس کو کھول کر بھی نہ دیکھے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟
لیکن آج مسلمانوں نے قرآن کریم کو طاق میں سجا کر رکھا ہوا ہے،اس کی تلاوت ہی نہیں کی جاتی ، اگر کسی کو تلاوت کی توفیق ہو بھی جائے تو اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی،ہر مسلمان اللہ تعالیٰ،رسول اللہ ﷺ اورقرآن پر تو ایمان رکھتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ،کس قدر غفلت کی بات ہے!
یہ بات بھی نہیں کہ اس کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہو، الحمد للہ اس دور میں تقریباً ہر زبان میں ہی قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر علماء کی جانب سے لکھے جا چکے ہیں،اس لئے ہر مسلمان کوشش کرے کہ اپنے پاس کو ئی مستند ترجمہ یا تفسیر رکھے اور اس کو پڑھ کر قرآن کریم کوسمجھنے کی کوشش کرے،چونکہ آج کل بہت سے گمراہ لوگوں نے بھی تراجم وتفاسیر لکھ دی ہیں اس لئے کسی مستند عالم دین سے مشورہ کر کے کو ئی ترجمہ یا تفسیر خریدنی چاہئے اور اس کو پڑھنے کا معمول بنانا چاہئے۔
(۳)۔۔۔ قرآن مجید کا تیسراحق
تیسراحق قرآن مجید کا یہ ہے کہ اس میں جو ہدایات اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں ان کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے،ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے کہ قرآن مجید کے ان تین حقوق کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرے ۔
ختم قرآن کے موقع پر دعا کی قبولیت
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ختم قرآن کریم کے موقع پر کی جانے والی دعا کو قبول فرماتے ہیں،اور ختمِ قرآن کا موقع اجابتِ دعا کا ایک خاص موقع ہوتا ہے،ہمارے ہاں عام طور پر ستائیسویں شب کو ختم قرآن کا معمول ہوتاہے تو اس وقت کی فضیلت اور بھی بڑھ جاتی ہے،کیونکہ رمضان بھی ہے،اور اس کا بھی آخری عشرہ ہے،اور آخری عشرہ کی بھی طاق رات ،اور طاق راتوں میں سے بھی وہ رات جس کے بارے میں حضرت اُبی بن کعبؓ نے فرمایا کہ :میںقسم اُٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ستائیسویں شب،شبِ قدر ہوتی ہے،اس لئے اس قدر فضیلت والی ر ات میں جب ختم قرآن کا موقع بھی ہوتو خصوصیت کے ساتھ دعا کا اہتمام کرنا چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی ؒہے کہ وہ جب قرآن کریم کو تلاوت میںختم فرماتے تھے تو سب گھر والوں کو جمع فرما کر دعا کرتے تھے،فرماتے تھے کہ یہ اجابتِ دعا کا وقت ہے،اس لئے ہر شخص کو ختم قرآن کے موقع پر دعا کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے،اور دعا کرتے وقت اس کے آداب کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
دعا مانگنے کے آداب
دعا کے آداب میں سے سب سے پہلا ادب یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ کی حمد و ثناء کی جائے، اس کے بعد رسول اللہﷺ پر دردو بھیجا جائے اور اس کے بعد دعا کی جائے ، ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کاطریقہ ہی نہیںآتا ،لیکن رسول اللہﷺ کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں ایسی ایسی دعائیں سکھا ئیں جو ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی تھیں،ان دعاؤں میں سے ایک دعا جو دعا شروع کرتے وقت پڑھنی چاہئے یہ ہے کہ :
{ أللّٰہُمَّ اِنِّیْ أسْئَلُکَ خَیْرَ الْمَسْئَلَۃِ وَ خَیْرَ الدُّعَائِ وَ خَیْرَ الاجَابَۃِ }
اے اللہ ! میں آپ سے اچھا سوال کرنے کی دعا مانگتاہوں،اور اچھی دعا کرنے کی توفیق مانگتا ہوں ۔
یعنی مجھے دعا مانگنا نہیں آتا،آپ میرے دل میں ایسی دعاؤں کا القاء فرمادیجئے جو میرے حق میں اچھی ہوں،حکیم الامت حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ نے ایک مرتبہ یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی مہربان ہے کہ کوئی مانگنے والا ہونا چاہئے،اللہ کے ہاں کوئی کمی نہیں ہے:
کوئی ناشناسا زیادہ ہو تو کیا علاج
ان کی نوازشوں میں تو کوئی کمی نہیں
کوئی جھولی پھیلا کر مانگنے والا ہو اللہ تعالیٰ کی عطا میں کوئی کمی نہیں ہے،حضرت کے ایک مریدخواجہ مجذوبؒ تھے،انہوں نے پوچھا کہ حضرت!اگر کسی کے پاس مانگنے کے لئے جھولی ہی نہ ہوتو وہ کیا کرے؟فرمایا کہ جھولی بھی اللہ سے ہی مانگے کہ یا اللہ! میرے پاس تو جھولی بھی نہیں ہے،جھولی بھی آپ ہی عطا فرمادیں،تو رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ دعا بھی ایسی ہی ہے کہ دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہے ہیں کہ یا اللہ ! مجھے تو مانگنا بھی نہیںآتا،آپ ہی اپنے فضل و کرم سے مانگنے کا سلیقہ بھی سکھا دیجئے۔
اس لئے دعا مانگنے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنا چاہئے،اس کے بعد مذکورہ دعا مانگنی چاہئے ،پھرعربی زبان میں جو دعائیں رسول اللہ ﷺ اورحضرات صحابۂ کرام ؓ سے منقول ہیں وہ کرنی چاہیں ،اس کے بعد اپنی اپنی زبان میں جو بھی دعائیں آپ کر سکتے ہیں اخلاص کے ساتھ اور قبولیت کی امید کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہئیں،اس طریقہ سے جب ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان شاء اللہ ہماری دعاؤں کو قبول فرمالیں گے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعا مانگنے کا سلیقہ عطا فرمائیں،آمین۔
و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین