حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بَاللّٰہِ مِنْ شُرُوُرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئٰاتِ اَعْمَالِنَا ۔مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَ نَبِیَّنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا ۔اَمَّابَعْدُ

امت محمدیہ کی کثرت
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے سامنے موسم حج کے موقعہ پر ساری امتیں پیش کی گئیں یعنی بذریعہ کشف آپ کو تمام پچھلی امتیں دکھائی گئیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت اور دوسرے انبیاء کی امتیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیگئیں ،اور ان کے ساتھ امت محمدیہ بھی آپ کے سامنے پیش کی گئی تو مجھے اپنی امت کی تعداد جوکہ بہت بڑی تھی ،اس کو دیکھ کر میرا دل بہت خوش ہوا ،اس لئے کہ دوسرے انبیاء کے امتیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی ،جتنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی تعداد تھی ۔
کثرت امت دیکھ کر آپ کی خوشی
دوسری روایت میں یہ تفصیل ہے کہ جب گذشتہ انبیاء کی امتیں آپ کے سامنے پیش کی جانے لگیں تو بعض انبیاء کی امت میں دو تین آدمی تھے، کسی کے ساتھ دس بارہ تھے ،اس لئے کہ بعض انبیاء کرام علہیم السلام پر ایمان لانے والے محد ود چند افراد تھے بعض انبیاء پر ایمان لانے دس بارہ افراد تھے، بعض پر ایمان لانے والے سو افراد تھے بعض پر ایمان لانے والے ہزار تھے ۔جب یہ امتیں آپ کے سامنے پیش کی گئیں تو آپ کو ایک بڑا گروہ نظر آیا، آپ نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ آپؐ کو بتلایا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کی امت تعداد کے اعتبار سے بہت زیادہ تھی پھر بعد میں آپ کے سامنے ایک اور بڑا گروہ پیش کیا گیا جو سارے میدان پر چھاگیا ،اور سارے پہاڑوں پر چھاگیا ،میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ ؐ کو بتلایا گیا کہ یہ آپکی امت ہے پھر آپ سے سوال کیا گیا کہ : یَا مُحَمَّدْ !اَرَضِیْتَ ؟ کیا آپ راضی ہوگئے ؟ یعنی کیا اس سے خوش ہیں کہ آپ کی امت کی انتی بڑی تعداد ہے جو کسی اور پیغمبر کی امت کی نہیں ہے میں نے جواب دیا : ’’نَعَمْ ،یَارَبِّیْ ‘‘ہاں اے میرے پروردگار ،مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ الحمدللہ ،میری امت کے اندراتنی بڑی تعداد لوگوں کی موجود ہے۔
ستر ہزار کا بلا حساب جنت میں دخول
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوش خبری سنائی کہ :

’’اِنَّ مَعَ ہٰؤُلَائِ سَبْعِیْنَ اَلْفًا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ‘‘
(بخاری کتاب الطب ،باب من لم یرق)

یعنی یہ جو امت آپ کو نظر آرہی ہے اس میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بلا حساب جنت میں داخل ہونگے ،ان سے حساب نہیں لیا جائے گا ۔پھر اس کی شرح فرمائی کہ وہ لوگ جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہونگے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اندر یہ چار صفتیں ہوں گی ۔
چار اوصاف والے
پہلی صفت یہ ہے کہ ہُمْ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَرقُوْنَ ،یعنی وہ لوگ جھاڑ پھونک نہیں کرتے، دوسری صفت یہ ہے کہ وہ لوگ بیماری کا علاج داغ لگاکر نہیں کرتے ، اہل عرب میں یہ رواج تھا کہ جب کسی بیماری کا کوئی علاج کار گر نہیں ہوتا تھا تو اس وقت وہ لوگ لوہاگرم کرکے بیمار کے جسم سے لگاتے تھے۔ تیسری صفت یہ کہ وہ بدشگونی نہیں لیتے کہ فلاں بات ہوگئی تو اس سے برا شگون لے لیا چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کے بجائے اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں ۔ جن لوگوں میں یہ چار صفتیں ہوں گی وہ ان ستر ہزار افراد میں داخل ہوں گے جو بلاحساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے ۔
ستر ہزار کا عدد کیوں ؟
اور یہ جو ستر ہزار افراد بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے ،ان کے لئے جو عدد بیان کیا گیا ہے کہ وہ ستر ہزار ہوں گے ،بعض حضرت نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ وہ واقعۃً ستر ہزار افراد ہوں گے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ستر ہزار کا لفظ یہاں عدد بیان کرنے کے لئے ،نہیں ہے بلکہ کثرت کو بیان کرنا مقصود ہے، جیسے کوئی شخص کسی چیز کی کثرت کو بیان کرتا ہے تو اس کے لئے عدد بیان کردیتا ہے، جبکہ مقصود عدد بیان کرنا نہیں ہوتا ، بلکہ کثرت بیان کرنی مقصود ہوتی ہے، اسی طرح یہاں بھی اس عدد سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس امت کے بے شمار افراد کو بلا حساب و کتاب کے جنت میں داخل فرمائیں گے ۔اور بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ یہ جو ستر ہزار افراد ہوں گے ، پھر ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار افراد ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائیں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنی رحمت سے ہم سب کو جنت میں داخل فرمادے ۔آمین ستر ہزار میں شامل ہونے کی دعا
جس وقت حضور اکرم انے صحابہ کرام کے سامنے یہ بات ارشاد فرمائی تو ایک صحابی حضرت عُکاشہ ؓ کھڑ ے ہوئے عرض کیا کہ :۔

یَارَسُوْلَ اللّٰہِ: فَادْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلَنِیْ مِنْہُمْ

یارسول اللہ ! میرے لئے آپ دعا فرمادیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں داخل فرمادے حضور اقدس انے اسی وقت ان کے لئے دعا فرمادی کہ یااللہ ان کو ان لوگوں میں داخل فرمادے جو بلاحساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونے والے ہیں ۔بس ان کا تو پہلے مرحلے پر ہی کام بن گیا۔ جب دوسرے صحابہ کرام نے دیکھا کہ یہ تو بڑا اچھاموقع ہے تو ایک صاحب اور کھڑے ہوگئے اور کہاکہ یا رسول اللہ ،میرے لئے دعا فرمادیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں داخل فرمادیں ۔اس پر حضور اقدس انے ارشاد فرمایا کہ :۔

سَبَقَکَ بَہَا عُکَاشَۃُ

یعنی عکاشہ تم سے سبقت لے گئے،مطلب یہ تھا کہ چونکہ سب سے پہلے انہوں نے دعا کی درخواست کردی، میں نے اس کی تعمیل کردی، اب یہ سلسلہ مزید دراز نہیں ہوگا ،اب اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے اس کو داخل فرمائیں گے ۔
ہر مسلمان کو یہ دعا مانگنی چاہئے
اس حدیث میں امت محمد یہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام کے لئے بشارت ہے اور ان لوگوں کے لئے بڑی بشارت ہے جن کو اللہ تعالیٰ اس جماعت میں داخل فرمالیں جو بلا حساب و کتاب جنت میں داخل کردی جائے گی ، ہمارا کیا منھ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں شامل فرمالیں ،لیکن ان کی رحمت کے پیش نظر ایک ادنیٰ سے ادنیٰ امتی بھی یہ دعا مانگ سکتا ہے کہ یا اللہ ، میں اس قابل تو نہیں ہوں ، لیکن آپ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں ہے کہ میرے جیسے آدمی کو بھی بلاحساب و کتاب کے جنت میں داخل فرمادیں ،آپ کی رحمت کی وسعت میں کوئی کمی نہیں آتی ۔لہٰذا ہر مسلمان کو یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بلا حساب و کتاب کے جنت میں داخل فرمادیں ۔
تکلیف یقینی اور فائدہ غیر یقینی والا علاج
بہر حال اس حدیث میں چار صفات بیان فرمائی ہیں کہ جن میں یہ چار صفات پائی جائیں گی ،وہ جنت میں بلاحساب داخل ہوں گے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگ علاج کے وقت داغ نہیں لگاتے ۔اس زمانہ میں اہل عرب کے یہاں یہ طریقہ تھا کہ لوگ جب کسی بیماری کا علاج کرتے اورکوئی دوا کار گرنہ ہوتی تو ان کے یہاں یہ بات مشہور تھی کہ لوہا آگ پر گرم کرکے اس بیمار کے جسم پر لگایا جائے اس کے ذریعے مریض کو سخت تکلیف ہوتی تھی، ظاہر ہے کہ جب جلتا ہوا لوہا جسم سے لگے گا تو کیا قیامت ڈھائے گا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ علاج ہے اور اس سے بیماری دور ہوتی ہے جناب رسول اللہ انے اس طریقہ ٔ علاج کو پسند نہیں فرمایا ،اس لئے کہ اس طریقہ ٔ علاج میں تکلیف نقد ہے اور فائدہ یقینی نہیں ،اور وہ علاج جس میں تکلیف تو نقد ہوجائے اور فائدہ کا پتہ نہ ہو کہ فائدہ ہوگا یا نہیں ایسا علاج پسندیدہ نہیں ،نبی کریم انے اس کو ناپسند فرمایا ۔
علاج میں بھی اعتدال مطلوب ہے
دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ در حقیقت یہ داغنے کا طریقہ علاج کے اندر غلواور مبالغہ ہے، عرب میں یہ مقولہ مشہور تھا کہ ’’اٰخِرُ الدَّوَائِ السْکَیُّ‘‘یعنی آخری علاج داغ لگانا ہے،بتلانا یہ مقصود ہے کہ جب آدمی بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کرانا سنت ہے، لیکن علاج ایسا ہونا چاہئے جو اعتدال کے ساتھ ہو ،یہ نہیں کہ علاج کے اندر آپ انتہاکو پہنچ جائیں ، اور مبالغہ سے کام لیں ، یہ بات پسندیدہ نہیں ۔یہ در حقیقت اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے آدمی مبالغہ کررہا ہے، انسان اسباب ضرور اختیار کرے، لیکن اعتدال کے ساتھ کرے، حدیث میں حضور اکرم انے فرمایا :’

’اَجْمَلِوْا فِی الطَّلَبِ ‘‘ (کنزالعمال حدیث ۹۲۹۱)

یعنی ایک اجمالی کوشش کرو، پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو، یہ ہے سنت ،لہٰذا علاج میں اس طرح کا انہماک ،اور بہت زیادہ غلویہ پسندیدہ نہیں ۔
بدشگونی اور بدفالی کوئی چیز نہیں
دوسری صفت جو بیان فرمائی وہ بدشگونی ہے، اس کا بیان پہلے ہوچکا ہے کہ بدشگونی لینا کہ فلاں عمل سے یہ بدفالی ہوگئی، مثلاً بلی راستہ کاٹ گئی تو اب سفر ملتوی کردیں وغیرہ ۔یہ سب باتیں جاہلیت کے زمانے کی باتیں تھیں ،اور اس کا اصل سبب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کی کمی تھی ،اس وجہ سے فرمایا کہ وہ لوگ بدشگونی نہیں کرتے ۔
تعویذ گنڈوں میں افراط وتفریط
تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگ جھاڑ پھونک نہیں کرتے ،یعنی وہ لوگ جو جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے وہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج نہیں کرتے اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کے بارے میں لوگوں کے درمیان افراط و تفریط پائی جارہی ہے ،بعض لوگ وہ ہیں جو سرے سے جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کے بالکل ہی قائل نہیں ، بلکہ وہ لوگ اس قسم کے تمام کاموں کو نا جائز سمجھتے ہیں ۔ اور بعض لوگ تو اس کام کو شرک قرار دیتے ہیں ، اور دوسری طرف بعض لوگ ان تعویذ گنڈوں کے اتنے زیادہ معتقد اور اس میں اتنے زیادہ منہمک ہیں کہ ان کو ہر کام کے لئے ایک تعویذ ہونا چاہئے ، ایک وظیفہ ہونا چاہئے ایک گنڈا ہونا چاہئے ۔میرے پاس روزانہ بے شمار لوگوں کے فون آتے ہیں کہ صاحب بچی کے رشتے نہیں آرہے ہیں ،اس کے لئے کوئی وظیفہ بتادیں ،روز گار نہیں مل رہا ہے اس کے لئے کوئی وظیفہ بتادیں ،میرا قرضہ ادا نہیں ہورہا ہے ،اس کے لئے کوئی وظیفہ بتادیں ۔دن رات لوگ بس اس فکر میں رہتے ہیں کہ سارا کام ان وظیفوں سے اور ان تعویذ گنڈوں سے ہوجائے ،ہمیں ہاتھ پائوں ہلانے کی ضرورت نہ پڑے ۔
جھاڑ پھونک میں غیر اللہ سے مدد
یہ دونوں باتیں افراط و تفریط کے اندر داخل ہیں ، اور شریعت نے جو راستہ بتایا ہے وہ ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے، جو قرآن و سنت سے سمجھ میں آتا ہے ۔یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ جھاڑ پھونک کی کوئی حیثیت نہیں اور تعویذ کرنا ناجائز ہے اس لئے کہ اگرچہ اس روایت میں ان لوگوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ اس سے ہر قسم کی جھاڑ پھونک مراد نہیں ،بلکہ اس حدیث میں زمانۂ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کا جو طریقہ تھا اس کی طرف اشارہ ہے، زمانہ جاہلیت میں عجیب و غریب قسم کے منتر لوگوں کو یاد ہوتے تھے ،اور یہ مشہور تھا کہ یہ منتر پڑھو تو اس سے فلاں بیماری سے افاقہ ہوجائے گا ،فلاں منتر پڑھوتو اس سے فلاں کام ہوجائے گا وغیرہ اور ان منتروں میں اکثر و بیشتر جنات اور شیاطین سے مدد مانگی جاتی تھی ،کسی میں بتوں سے مدد مانگی جاتی تھی۔بہر حال ان منتروں میں ایک خرابی تویہ تھی کہ ان میں غیر اللہ سے اور بتوں سے اور شیاطین سے مدد مانگی جاتی تھی کہ تم ہمارا یہ کام کردو، اسی طرح ان منتروں میں مشرکانہ الفاظ ہوتے تھے ۔
جھاڑ پھونک کے الفاظ کومؤثر سمجھنا
دوسری خرابی یہ تھی کہ اہل عرب ان الفاظ کو بذاتِ خود موثر مانتے تھے ،یعنی ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ تاثیر دیگا تو ان میں تاثیر ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی تاثیر کے بغیرتاثیر نہیں ہوگی ،بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان الفاظ میں بذات خود تاثیر ہے، اور جو شخص یہ الفاظ بولے گا اس کو شفا ہوجائے گی، یہ دو خرابیاں تو تھیں ہی اس کے علاوہ بسا اوقات وہ الفاظ ایسے ہوتے تھے کہ ان کے معنی ہی سمجھ میں نہیں آتے تھے ،بالکل مہمل قسم کے الفاظ ہوتے تھے ،جن کے کوئی معنیٰ نہیں ہوتے تھے، وہ الفاظ بولے بھی جاتے تھے، اور ان الفاظ کو تعویذ کے اندر لکھا بھی جاتا تھا، درحقیقت ان الفاظ میں بھی اللہ کے سوا شیاطین اور جنات سے مدد مانگی جاتی تھی، ظاہر ہے کہ یہ سب شرک کی باتیں تھیں اس لئے نبی کریم انے جاہلیت کے جھاڑ پھونک کے طریقے کو منع فرمادیا ۔اور یہ فرمایا کہ جو لوگ اس قسم کے جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں میں مبتلا نہیں ہوتے یہ وہ لوگ ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ بلا حساب و کتاب جنت میں داخل فرمائیں گے ۔لہٰذا اس حدیث میں جس جھاڑ پھونک کا ذکر ہے اس سے وہ جھاڑ پھونک مراد ہے جس کا زمانۂ جاہلیت میں رواج تھا۔
ہر مخلوق کی خاصیت اور طاقت مختلف
اس کی تھوڑی سی حقیقت بھی سمجھ لیجئے کہ یہ کار خانہ حیات یہ کائنات کا پورا نظام اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف چیزوں میں مختلف خاصیتیں اور مختلف تاثیریں رکھ دی ہیں مثلاً پانی کے اندر یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ پیاس بجھاتا ہے ۔آگ کے اندر جلانے کی خاصیت رکھ دی ہے، اگر اللہ تعالیٰ یہ تاثیر آگ سے نکال دیں تو آگ جلانا چھوڑ دے گی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اسی آگ کو اللہ تعالیٰ نے گلزار بنادیا تھا ،ہو اکے اندر تاثیر الگ رکھی ہے ،مٹی کی تاثیر الگ ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی مخلوقات پیدا فرمادی ہیں ، انسان ،جنات ،جانور ، شیاطین، وغیرہ اور ان میں سے ہر ایک کو کچھ طاقت دے رکھی ہے انسان کو طاقت دے رکھی ہے گدھے گھوڑے کو بھی طاقت دے رکھی ہے، شیر اور ہاتھی کو بھی طاقت دے رکھی ہے اور ہر ایک کی طاقت کا معیار اور پیمانہ مختلف ہے۔ شیر جتنا طاقتور ہے، انسان اتنا طاقتور نہیں ہے۔ سانپ کے اندر زہررکھ دیا، اگر وہ کسی کو کاٹ لے تو وہ مرجائے ،اسی طرح بچھو کے اندر زہر رکھ دیا ہے، لیکن اس کے کاٹنے سے مرتا نہیں ، بلکہ تکلیف ہوتی ہے، بہر حال ہر ایک کی خاصیتیں مختلف ہیں اور طاقتیں مختلف ہیں ۔
جنات اور شیاطین کی طاقت
اسی طرح جنات اور شیاطین کو بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ طاقتیں دے رکھیں ہیں ، وہ طاقتیں انسان کے لئے باعث تعجب ہوتی ہیں ، مثلاً جنات کو اور شیاطین کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ کسی کو نظر نہ آئے ، یہ طاقت انسان کو حاصل نہیں ، اگر انسان یہ چاہے کہ میں کسی کو نظر نہ آئوں ،تو وہ ایسی صورت حاصل نہیں کرسکتا۔اگر انسان یہ چاہے کہ میں ایک لمحہ میں یہاں سے اڑکر امریکہ چلاجائوں تو یہ طاقت اس کو حاصل نہیں ہے لیکن بعض جنات اور شیاطین کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دے رکھی ہے یہ شیاطین لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے دین سے پھیرنے کے لئے بعض اوقات انسان کو ایسے کلمات کہنے کی ترغیب دیتے ہیں جو شرک والے ہیں ، وہ شیاطین انسانوں سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تم وہ کلمات کہوگے جو شرک والے ہیں اور نعوذ باللہ ،اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرو گے تو ہم خوش ہوں گے، اور جو طاقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے رکھی ہے اس کو تمہارے حق میں استعمال کریں گے ۔
اس عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں
مثلاً فرض کریں کہ کسی کی کوئی چیز گم ہوگئی ہے اور وہ بیچارہ ڈھونڈتا پھر رہا ہے اب اگر کسی جن یا شیاطین کو پتہ چل گیا کہ وہ کہاں پڑی ہوئی ہے تو وہ اس چیز کو اٹھاکر ایک منٹ میں لاسکتا ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ طاقت دی ہے اس شیطان نے اپنے معتقدین سے یہ کہہ رکھا ہے کہ اگر تم یہ کلمات کہو گے تو میں تمہاری مدد کروں گا اور وہ چیز لاکر دیدوں گا اس کا نام ’’جادو‘‘اس کا نام ’’سحر‘‘اور ’’کہانت‘’ہے اور اسی کو ’’سفلی‘‘عمل بھی کہا جاتا ہے،اس عمل کا تعلق نہ کسی نیکی سے ہے نہ تقویٰ سے ،نہ دین سے ہے، اور نہ ہی ایمان سے ،بلکہ بدترین کافر بھی اس طرح کے شعبدے دکھادیتے ہیں ، اس وجہ سے کہ ان کے ہاتھ میں بعض جنات اور شیاطین مسخر ہیں ، وہ جنات ان کا کام کردیتے ہیں ،لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت پہنچا ہوا آدمی ہے اور بڑا نیک آدمی ہے، حالانکہ اس عمل کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس عمل کے لیے ایمان بھی ضروری نہیں ،اسی لئے سفلی عمل اور سحر کو حدیث شریف میں سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور سحر کرنے والے کی نوبت کفر تک پہنچتی ہے۔ بہر حال یہ طریقہ جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا نبی کریم انے اس کو منع فرمایا ہے کہ اگر اللہ پر ایمان ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان ہے تو پھر یہ شرکیہ کلمات کہہ کر اور فضول مہمل کلمات ادا کرکے شیاطین کے ذریعہ کام کرانا شریعت میں ناجائز اور حرام ہے اور کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے
بیمار پر پھونکنے کے مسنون الفاظ
لیکن ساتھ ہی رسول کریم انے اس قسم کے منتروں کے بجائے اور شرکیہ کلمات کے بجائے آپ نے خود اللہ تعالیٰ جل شانہ کے نام مبارک سے جھاڑ پھونک کیا اور صحابہ کرام کو یہ طریقہ سکھایا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص بیمار ہوجائے تو یہ کلمات کہو :

اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَذْہِبِ الْبَاسَ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیُ لَاشِفَائً اِلَّاشِفَائُکَ ، شِفَائً لَایُغَادِرُ سَقَمًا ۔
(ابوداؤد ،کتاب الطب، باب فی التمائم )

اور بعض اوقات آپ نے کلمات سکھا کر فرمایا کہ ان کلمات کو پڑھ کر تھوکو، اور اس کے ذریعہ جھاڑو۔آپ نے خود بھی اس پر عمل فرمایا، اور صحابہ کرام کو اس کی تلقین بھی فرمائی ۔
معوّذتین کے ذریعہ دم کرنے کا معمول
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس اکا روزانہ کا معمول تھا کہ رات کو سونے سے پہلے معوّذتین پڑھتے اور بعض روایات میں ’’قُلْ یٰاَہُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ‘‘ کا بھی اضافہ ہے یعنی قُلْ یٰاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ‘‘ اور ’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‘‘اور قَلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس‘‘ ان تینوں سورتوں کو تین تین مرتبہ پڑھتے ،اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک مارتے ،اور پھر پورے جسم پر ہاتھ پھیر تے ،یہ جھاڑ پھونک خود حضور اقدس انے فرمائی ہے۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس عمل کے ذریعہ شیطانی اثرات سے حفاظت رہتی ہے ، سحر سے اور فضول حملوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
مرض وفات میں اس معمول پر عمل
ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول کریم امرض ِوفات میں تھے ،اور صاحب فراش تھے، اور اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ اپنا دست مبارک پوری طرح اٹھانے پر قادر نہیں تھے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ مجھے خیال آیا کہ رات کا وقت ہے اور سرکار دو عالم اساری عمر یہ عمل فرماتے رہے کہ معوّذتین پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم فرماتے تھے، اور پھر ان ہاتھوں کو سارے جسم پر پھیرتے تھے لیکن آج آپ کے اندر یہ طاقت نہیں کہ یہ عمل فرمائیں ۔چنانچہ میں نے خود معوذتین پڑھ کر رسول کریم اکے دست مبارک پر دم کیا اور آپ ہی کے دست مبارک کو آپ کے جسم مبارک پر پھیر دیا، اس لئے کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو آپ کے جسم مبارک پر پھیرتی تو اس کی اتنی تاثیر اور اتنا فائدہ نہ ہوتا جتنا فائدہ خود آپ کے دست مبارک پھیرنے سے ہوتا۔اور بھی متعدد مواقع پر رسول کریم انے یہ تلقین فرمائی کہ اگر جھاڑ پھونک کرنی ہے تو اللہ کے کلام سے کرو، اور اللہ کے نام سے کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے نام میں یقینا جو تاثیر ہے وہ شیاطین کے شرکیہ کلام میں کہاں ہوسکتی ہے ۔لہٰذا آپ نے اس کی اجازت عطا فرمائی ۔
حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ
روایات میں حضرت ابو سعید خدری ؓ کا ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام کا ایک قافلہ کہیں سفر پر جارہا تھا، راستے میں ان کا زاد راہ ،کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا، راستے میں غیر مسلموں کی ایک بستی پر اس قافلے کا گزر ہوا ،انہوں نے جاکر بستی والوں سے کہا کہ ہم مسافر لوگ ہیں ، اور کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا ہے۔ اگر تمہارے پاس کچھ کھانے پینے کا سامان ہو تو ہمیں دے دو ۔ان لوگوں نے شاید مسلمانوں سے تعصب اور مذہبی دشمنی کی بنیاد پر کھانا دینے سے انکار کردیا کہ ہم تمہاری مہمانی نہیں کرسکتے ۔صحابہ کرام کے قافلے نے بستی کے باہر پڑائو ڈال دیا، رات کا وقت تھا ،انہوں نے سوچا کہ رات یہاں پر گزار کر صبح کسی اور جگہ کھانا تلاش کریں گے ۔
سردار کو سانپ نے ڈس لیا
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس بستی کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا، اب بستی والوں نے سانپ کے کاٹنے کے جتنے علاج تھے وہ سب آزمالئے ، لیکن اس کا زہر نہیں اترتا تھا کسی نے ان سے کہا کہ سانپ کا زہر اتارنے کے لئے جھاڑ پھونک کی جاتی ہے،اگر جھاڑ پھونک جاننے والا ہو تو اس کو بلایا جائے، تاکہ وہ آکر زہر اتارے ۔انہوں نے کہا کہ بستی میں تو جھاڑ پھونک کرنے والا کوئی نہیں ہے کسی نے کہا کہ وہ قافلہ جو بستی سے باہر ٹھہرا ہوا ہے، وہ مولوی قسم کے لوگ معلوم ہوتے ہیں ،ان کے پاس جاکر معلوم کرو، شاید ان میں سے کوئی شخص سانپ کی جھاڑ جانتا ہو چنانچہ بستی کے لوگ حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس آئے، اور پوچھا کہ کیا آپ میں کوئی شخص ہے جو سانپ کے ڈسے کو جھاڑ دے بستی کے ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں جھاڑدو گا ،لیکن تم لوگ بہت بخیل ہو کہ ایک مسافر قافلہ آیا ہوا ہے تم سے کہا کہ ان کے کھانے پینے کا انتظام کردو، تم نے ان کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں کیا بستی والوں نے کہا کہ ہم بکریوں کا پورا گلہ آپ کو دیدیں گے، لیکن ہمارے آدمی کا تم علاج کردو۔
سورۂ فاتحہ سے سانپ کا زہر اتر گیا
چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ خود اپنا واقعہ سناتے ہیں کہ مجھے جھاڑ پھونک تو کچھ نہیں آتا تھا لیکن میں نے سوچا کہ اللہ کے کلام میں یقینا برکت ہوگی اس لئے میں ان لوگوں کے ساتھ بستی میں گیا اور وہاں جاکر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرتا رہا ،سورۂ فاتحہ پڑھتا اور دم کرتا، اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کا زہر اتر گیا اب وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور بکریوں کا ایک گلہ ہمیں دیدیا ۔ہم نے بکریوں کا گلہ ان سے لے تو لیا، لیکن بعد میں خیال آیا کہ ہمارے لئے ایسا کرنا جائزبھی ہے یا نہیں ؟ اور یہ بکریاں ہمارے لئے حلال بھی ہیں یا نہیں ؟ لہٰذا جب تک حضور اقدس اسے نہ پوچھ لیں ،اس وقت تک ان کو استعمال نہیں کریں گے ۔(بخاری ،کتاب الطب ،باب النفث فی ارقیۃ )
جھاڑ پھونک پر معاوضہ لینا
چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ حضور اقدس اکی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا واقعہ سنایا، اور پوچھا کہ یا رسول اللہ ،اس طرح بکریوں کا گلہ ہمیں حاصل ہوا ہے، ہم اس کو رکھیں یا نہ رکھیں ؟ حضور اقدس انے فرمایا کہ تمہارے لئے اس کو رکھنا جائز ہے۔ لیکن یہ بتائو کہ تمہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ سانپ کے کاٹنے کا یہ علاج ہے ؟ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ میں نے سوچا کہ بے ہودہ قسم کے کلام میں تاثیر ہوسکتی ہے تو اللہ کے کلام میں تو بطریق اولیٰ تاثیر ہوگی، اس وجہ سے میں سورۂ فاتحہ پڑھتا رہا، اور دم کرتا رہا ،اللہ تعالیٰ نے اس سے فائدہ پہنچادیا ،سرکار دو عالم اان کے اس عمل سے خوش ہوئے اور ان کی تائید فرمائی، اور بکریوں کا جو گلہ بطور انعام کے ملا تھا ،اس کو رکھنے کی اجازت عطا فرمائی، اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہ عمل فرمایا اور صحابہ کرام سے بھی کرایا یہ تو جھاڑ پھونک کا قضیہ ہوا۔
تعویذ کے مسنون کلمات
اب تعویذ کی طرف آئیے ،تعویذ کا غذپر لکھے جاتے ہیں ،اور ان کو کبھی پیا جاتا ہے، اور کبھی گلے اور بازو میں باندھا جاتا ہے، کبھی جسم کے کسی اور حصے پر استعمال کیا جاتا ہے، خوب سمجھ لیں کہ رسول اللہ اسے تو یہ ثابت نہیں کہ آپنے کوئی تعویذ لکھا ہو ، لیکن صحابہ کرام سے تعویذ لکھنا ثابت ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرم انے بہت سے صحابہ کرام کو یہ کلمات سکھائے تھے کہ :۔

اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَاتِ مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ وَاللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَہُوَ اَرْحَمُ الرَّحِمِیْنَ

چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ عنہ جو یہودی سے مسلمان ہوئے تھے اور یہودی ان کے دشمن تھے، اور ان کے خلاف جادو وغیرہ کرتے رہتے تھے تو حضور اقدس انے ان کو یہ کلمات سکھاتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم یہ کلمات خود پڑھا کرو اور اپنے اوپر اس کا دم کرلیا کرو، پھر انشاء اللہ کوئی جادو تم پر اثر نہیں کرے گا چنانچہ وہ یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔
ان کلمات کے فائدے
اور حضور اقدس انے یہ بھی فرمایا تھا کہ کہ اگر رات کو سوتے ہوئے کسی کی آنکھ گھبراہٹ سے کھل جائے اور اس کو خوف محسو س ہو تو اس وقت یہ کلمات پڑھ لے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بڑی اولاد کو تویہ کلمات سکھادئے ہیں ، اور یاد کرادئیے ہیں ، تاکہ اس کو پڑھ کر وہ اپنے اوپر دم کرتے رہا کریں ، اور اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہیں اور جو میرے چھوٹے بچے ہیں وہ یہ کلمات خود سے نہیں پڑھ سکتے، ان کے لئے میں نے یہ کلمات کاغذپر لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیے ہیں ۔ یہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا اثر ہے، اور ثابت ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ اگر کسی عورت کی ولادت کا وقت ہو تو ولادت میں سہولت پیدا کرنے کے لئے تشتری یا صاف برتن میں یہ کلمات لکھ کر اس کو دھوکر اس خاتون کو پلادیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ولادت میں سہولت فرمادیتے ہیں ،اسی طرح بہت سے صحابہ اور تابعین سے منقول ہے کہ وہ لکھ کر لوگوں کو تعویذ دیا کرتے تھے۔
اصل سنت ’’جھاڑ پھونک‘‘کا عمل ہے
لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے جو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ نے فرمائی ہے، اور احادیث سے یقینا وہی بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ تعویذ کا فائدہ ثانوی درجے کا ہے ، اصل فائدے کی چیز ’’جھاڑ پھونک‘‘ہے جو براہ راست رسول اللہ ا سے ثابت ہے،یہ عمل آپ نے خود فرمایا اور صحابہ کرام کو اس کی تلقین فرمائی، اس عمل میں زیادہ تاثیر اور زیادہ برکت ہے، اور تعویذ اس جگہ استعمال کیا جائے جہاں آدمی وہ کلمات خود نہ پڑھ سکتا ہو ،اور نہ دوسرا شخص پڑھ کر دم کرسکتا ہو، اس موقع پر تعویذ دے دیا جائے۔ ورنہ اصل تاثیر ’’جھاڑ پھونک‘‘میں ہے بہر حال صحابہ کرام سے دونوں طریقے ثابت ہیں ۔
کون سے ’’تمائم ‘‘ شرک ہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تعویذ لٹکانا شرک ہے ، اور گناہ ہے ، اس کی وجہ ایک حدیث ہے جس کا مطلب لوگ صحیح نہیں سمجھتے ، اس کے نتیجے میں وہ تعویذ لٹکانے کو ناجائز سمجھتے ہیں ، چنانچہ حدیث شریف میں رسول اللہ نے افرمایا :

اِنَّ الرُّقٰی وَالتَّمَائِمَ وَالتَّوْلَۃَ شِرْکٌ
(ابو داؤد ،کتاب الطب ،باب فی التمائم )

’’تمائم ‘‘تمیمہ کی جمع ہے، اور عربی زبان میں ’’تمیمہ ‘‘کے جو معنی ہیں اردو میں اس کے لئے کوئی لفظ نہیں تھا، اس لئے لوگوں نے غلطی سے اس کے معنی ’’تعویذ ‘‘سے کردیے، اس کے نتیجے میں اس حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ ’’تعویذ شرک ہے‘‘ اب لوگوں نے اس بات کو پکڑ لیا کہ ہر قسم کا تعویذ شرک ہے ،حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ’’تمیمہ ‘‘عربی زبان میں سیپ کی ان کوڑیوں کو کہا جاتا ہے جن کو زمانہ جاہلیت میں لوگ دھاگے میں پرو کر بچوں کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے ،اور ان کو ڑیوں پر مشرکانہ منتر پڑھے جاتے تھے ،اور دوسری طرف یہ کہ ان کوڑیوں کو بذات خود مؤثر سمجھا جاتا تھا، یہ ایک مشرکانہ عمل تھا جس کو ’’تمیمہ ‘‘ کہاجاتا تھا ،اور رسول اللہ انے اس کی ممانعت فرمائی کہ’’تمائم ‘‘شرک ہے۔
جھاڑ پھونک کے لئے چند شرائط
لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ کے نام کے ذریعہ جھاڑ پھونک کا تعلق ہے وہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے صحابہ سے ثابت ہے، اس لئے وہ ٹھیک ہے، لیکن اس کے جواز کے لئے چند شرائط ضروری ہیں ، ان کے بغیر یہ عمل جائز نہیں ۔
پہلی شرط
پہلی شرط یہ ہے کہ جو کلمات پڑھے جائیں ان میں کوئی کلمہ ایسا نہ ہو جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو ، اس لئے کہ بعض اوقات ان میں ’’یافلاں ‘‘کے الفاظ ہوتے ہیں ،اوراس جگہ پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام ہوتا ہے ،ایسا تعویذ ایسا گنڈا، ایسی جھاڑ پھونک حرام ہے، جس میں غیر اللہ سے مدد لی گی ہو ۔ دوسری شرط
دوسری شرط یہ ہے کہ اگر جھاڑ پھونک کے الفاظ یا تعویذ میں لکھے ہوئے الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی ہی معلوم نہیں کہ کیا معنی ہیں ، ایسا تعویذ استعمال کرنا بھی ناجائز ہے، اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی مشرکانہ کلمہ ہو ، اور اس میں غیر اللہ سے مدد مانگی گئی ہو یا اس میں شیطان سے خطاب ہو، اس لئے ایسے تعویذ بالکل ممنوع اور ناجائز ہیں ۔
یہ رُقیہ حضور علیہ وسلم سے ثابت ہے
البتہ ایک ’’رقیہ ‘‘ایسا ہے جس کے معنی ہمیں معلوم نہیں ،لیکن حضور اقدس انے اس کی اجازت دی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے حصور اقدس ا کے سامنے عرض کیا کہ ایک عمل ایسا ہے کہ اگر سانپ یا بچھو کسی کو کاٹ لے تو اس کے کاٹے کا اثر زائل کرنے کے لئے اور اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں کہ :

’’شَجَّۃٌ قَرْنِیَّۃٌ مِلْجَۃُ بَحْرٍ قَطَّعْ‘‘

اب اس کے معنی تو ہمیں معلوم نہیں ، لیکن جب حضور اکرم اپر پیش کیا گیا تو آپ نے اس کو منع نہیں فرمایا، شاید یہ عبرانی زبان کے الفاظ ہیں ، اور یہ حدیث صحیح سند کی ہے، اس لئے علماء کرام نے فرمایا کہ صرف یہ ’’ایک رقیہ‘‘ایسا ہے جس کے معنی معلوم نہ ہونے کے باوجود اس کے ذریعہ جھاڑ پھونک بھی جائز ہے اور اس کے ذریعہ تعویذ لکھنا بھی جائز ہے۔ البتہ اس پر ایسا بھروسہ کرنا کہ گویا انہی کلمات کے اندر بذاتِ خود ثاثیرہے ،یہ حرام ہے، بلکہ ان کلمات کو ایک تدبیر سمجھے، اس سے زیادہ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ۔
بہر حال تعویذ اور جھاڑ پھونک کی یہ شرعی حقیقت ہے لیکن اس معاملے میں افراط و تفریط ہورہی ہے، ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو اس عمل کو حرام اور ناجائز کہتے ہیں ان کی تفصیل تو عرض کردی ۔
تعویذ دنیا عالم اور متقی ہونے کی دلیل نہیں
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بس سارا دین ان تعویذ گنڈوں کے اندر منحصر ہے، اور جو شخص تعویذ گنڈا کرتا ہے وہ بہت بڑا عالم ہے، وہ بہت بڑا نیک آدمی ہے ، متقی اور پرہیز گار ہے، اسی کی تقلید کرنی چاہئے ،اس کا معتقد ہونا چاہئے اور جو شخص تعویذ گنڈا نہیں کرتا یا جس کو تعویذ گنڈا کرنا نہیں آتا اس بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو دین کا علم ہی نہیں ۔بہت سے لوگ میری طرف رجوع کرتے ہیں کہ فلاں مقصد کے لئے تعویذ دیدیجئے میں ان سے جب کہتا ہو ں کہ مجھے تو تعویذ دینا نہیں آتا تو وہ لوگ بہت حیران ہوتے ہیں ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو اتنا بڑا دارالعلوم بناہوا ہے اس میں تعویذ گنڈے ہی سکھائے جاتے ہیں ، اور اس میں جو درس ہوتے ہیں وہ سب تعویذ اور جھاڑ پھونک کے ہوتے ہیں ، لہٰذا جس کو جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا نہیں آتا ،وہ یہاں پر اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اس لئے جو اصل کام یہاں پر سیکھنے کا تھا وہ تو اس نے سیکھاہی نہیں ۔
تعویذ گنڈے میں انہماک مناسب نہیں
ان لوگوں نے سارا دین تعویذ گنڈے میں سمجھ لیا ہے ،اور ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دنیا کی کوئی غرض ایسی نہ ہو جس کا علاج کوئی تعویذ نہ ہو ، چنانچہ ان کو ہر کام کے لئے ایک تعویذ چاہئے ۔ فلاں کام نہیں ہورہا ہے، اس کے لئے کیا وظیفہ پڑھوں ؟ فلاں کام کے لئے ایک تعویذ دیدیں لیکن ہمارے اکابر نے اعتدال کو ملحوظ رکھا کہ جس حد تک حضور اقدس ا نے عمل کیا، اس حد تک ان پر عمل کریں ، یہ نہیں کہ دن رات آدمی یہی کام کرتا رہے، اور دین و دنیا کا ہر کام تعویذ گنڈے کے ذریعہ کرے، یہ بات غلط ہے۔اگر یہ عمل ہوتا تو پھر سرکار دو عالم اکو جہاد کرنے کی کیا ضرورت تھی، بس کافروں پر کوئی ایسی جھاڑ پھونک کرتے کہ وہ سب حضورا کے قدموں میں آکر ڈھیر ہوجاتے آپنے اس جھاڑ پھونک پر کبھی کبھی عمل بھی کیا ہے، لیکن اتنا غلو اور انہماک بھی نہیں کیا کہ ہر کام کے لئے تعویذ گنڈے کو استعمال فرماتے ۔
ایک انوکھا تعویذ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک دیہاتی آدمی آیا، اس کے دماغ میں یہی بسا ہوا تھا کہ مولوی اگر تعویذ گنڈا نہیں جانتا تو وہ بالکل جاہل ہے اس کو کچھ نہیں آتا، چنانچہ آپ کو بڑا عالم سمجھ کر آپ کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے تعویذ دے دو، مولانا نے فرمایا کہ مجھے تو تعویذ آتا نہیں ، اس نے کہا کہ اجی نہیں مجھے دیدو، حضرت نے فرمایا کہ مجھے آتا نہیں تو کیا دیدوں ؟ لیکن وہ پیچھے پڑگیا کہ مجھے تعویذ دے دو ،حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا لکھوں ،تو میں نے اس تعویذ میں لکھ دیا کہ :
’’یا اللہ ! یہ مانتا نہیں ،میں جانتا نہیں ، آپ اپنے فضل و کرم سے اس کا کام کردیجئے‘‘
یہ لکھ کر میں نے اس کو دیدیا کہ یہ لٹکا لے ،اس نے لٹکا لیا، اللہ تعالیٰ نے اسی کے ذریعہ اس کا کام بنادیا ۔
ٹیڑی مانگ پر نرالا تعویذ
حضرت ہی کا واقعہ ہے کہ ایک عورت آئی، اور اس نے کہا کہ جب میں سرکے بال بناتی ہوں تو مانگ ٹیڑھی بن جاتی ہے، سیدھی نہیں بنتی ، اس کا کوئی تعویذ دیدو حضرت نے فرمایا کہ مجھے تعویذ آتا نہیں ،اور اس کا کیا تعویذ ہوگا کہ مانگ سیدھی نہیں نکلتی ،مگر وہ عورت پیچھے پڑگئی ،حضرت فرماتے ہیں کہ جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو میں نے ایک کاغذپر لکھ دیا :بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ،اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ط اس کا تعویذ بناکر پہن لو تو شاید تمہاری مانگ سیدھی ہوجائے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدھی کردی ہوگی، بعض اوقات اللہ تعالیٰ کا معاملہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ جب ان کی زبان سے کوئی کلمہ نکل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کردیتے ہیں ۔
بہر حال بزرگوں کے واقعات اور حالات میں یہ جو لکھا ہوتا ہے کہ فلاں بزرگ نے یہ کلمہ لکھ دیا اس سے فائدہ ہوگیا، وہ اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی نیک بندے سے کوئی درخواست کی گئی ،اور اس کے دل میں آیا کہ یہ کلمات لکھ دوں ، شاید اس سے فائدہ ہوجائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ فائدہ دیدیا۔
ہرکام تعویذ کے ذریعہ کرانا
آج کل یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ ہر وقت آدمی جھاڑ پھونک کے دھندے میں لگارہتا ہے، ہر وقت اسی تعویذ گنڈے کے چکر میں لگارہتا ہے کہ صبح سے شام تک جو بھی کام ہو وہ تعویذ کے ذریعہ ہو ، فلاں کام کا الگ تعویذ ہونا چاہئے ،فلاں کام کا الگ تعویذ ہونا چاہئے ، ملازمت کا الگ تعویذ ہونا چاہئے، بیماری کا الگ تعویذ ہونا چاہئے ،ہر چیز کی ایک الگ دعا ہونی چاہئے ۔تعویذ گنڈے میں اتنا انہماک اور غلوسنت کے خلاف ہے۔ آپ ا نے کبھی کبھی جھاڑ پھونک کی ہے لیکن یہ نہیں تھا کہ دنیا کے ہر کام کے لئے جھاڑ پھونک کررہے ہیں ۔ کافروں کے ساتھ جہاد ہورہے ہیں ۔ لڑائی ہورہی ہے ۔کہیں یہ منقول نہیں کہ کفار کو زیر کرنے کے لئے آپ نے کوئی جھاڑ پھونک کی ہو ۔
تعویذ کرنا نہ عبادت نہ اس پر ثواب
ہاں دعا ضرور فرماتے تھے ، اس لئے کہ سب سے بڑی اور اصل چیز دعا ہے ،یاد رکھیے تعویذ اور جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج جائز ہے مگر یہ عبادت نہیں ، قرآن کریم کی آیات کو اور قرآن کریم کی سورتوں کو اور اللہ تعالیٰ کے ناموں کو اپنے کسی دنیوی مقصد کے لئے استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جائز ہے۔ لیکن یہ کام عبادت نہیں ، اور اس میں ثواب نہیں ہے جیسے آپ کو بخار آیا، اور آپ نے دواپی لی، تویہ دوا پینا جائز ہے، لیکن دوا پینا عبادت نہیں ، بلکہ ایک مباح کام ہے۔ اسی طرح تعویذ کرنا اور جھاڑ پھونک کرنا، اس تعویذ اور جھاڑ پھونک میں اگر چہ اللہ کا نام استعمال کیا، لیکن جب تم نے اس کو اپنے دنیاوی مقاصد کے لئے استعمال کیا تو اب یہ بذات خود ثواب اور عبادت نہیں ۔
اصل چیز دعا کرنا ہے
لیکن اگر براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگو ،اور دو رکعت صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ یا اللہ اپنی رحمت سے میرا یہ مقصد پورا فرمادیجئے ،تو اس دعا کرنے میں ثواب ہی ثواب ہے۔حضور اقدس اکی سنت یہ ہے کہ جب کوئی حاجت پیش آئے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرو، اور اگر دو رکعت صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ کر دعا کرو تو زیادہ اچھا ہے ،اس سے یہ ہوگا کہ جو مقصد ہے وہ اگر مفید ہے تو انشاء اللہ حاصل ہوگا اور ثواب تو ہر حال میں ملے گا۔ اس لئے کہ دعا کرنا، چاہے دنیا کی غرض سے ہو وہ ثواب کا موجب ہے۔ اس لئے کہ دعا کے بارے میں رسول اللہ انے فرمایا : اَلدُّعَائُ ہُوَالْعِبَادَۃُ ‘‘دعا بذات خود عبادت ہے۔
تعویذ کرنے کو اپنا مشغلہ بنالینا
لہٰذا اگر کسی شخص کو ساری عمر جھاڑ پھونک کا طریقہ نہ آئے ،تعویذ لکھنے کا طریقہ نہ آئے ، لیکن وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو یقینا اس کا یہ عمل اس تعویذ اور جھاڑ پھونک سے بد رجہا افضل اور بہتر ہے۔ لہٰذا ہر وقت تعویذ گنڈے میں لگے رہنا یہ عمل سنت کے مطابق نہیں ، جو بات نبی کریم ااور صحابہ کرام سے جس حد تک ثابت ہے اس کو اسی حد پر رکھنا چاہئے ،اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے اگر کبھی ضرورت پیش آئے تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن ہر وقت اس کے اندر انہماک اور غلوکرنا اور اس کو اپنا مشغلہ بنالینا کسی طرح بھی درست نہیں ، بس تعویذ گنڈوں کی یہ حقیقت ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
روحانی علاج کیا ہے ؟
اب لوگوں نے یہ تعویذ گنڈے ،یہ عملیات، یہ وظیفے اور جھاڑ پھونک ان کا نام رکھ لیا ہے ’’روحانی علاج ‘‘حالانکہ یہ بڑے مغالطے اور دھوکے میں ڈالنے والا نام ہے، اس لئے کہ روحانی علاج تو دراصل انسان کے اخلاق کی اصلاح کا نام تھا اس کے ظاہری اعمال کی اصلاح اور اس کے باطن کے اعمال کی اصلاح کا نام تھا۔
یہ اصل میں ’’روحانی علاج ‘‘تھا مثلاً ایک شخص کے اندر تکبر ہے، اب یہ تکبر کیسے زائل ہو؟ یا مثلاً حسد پیدا ہوگیا ہے، وہ کیسے زائل ہو؟ یا مثلاً بغض پیدا ہوگیا ہے، وہ کیسے زائل ہو؟ حقیقت میں اس کا نام ’’روحانی علاج ہے لیکن آج اس تعویذ گنڈے کے علاج کا نام روحانی علاج رکھ دیا ہے ،جو بڑے مغالطے والا عمل ہے ۔
صرف تعویذ دینے سے پیربن جانا
اور اگر کسی شخص کا تعویذ گنڈا اور جھاڑ پھونک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامیاب ہوگیا تو اس شخص کے متقی او رپرہیزگار ہونے کی دلیل نہیں ، اور نہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص دینی اعتبار سے مقتدیٰ بن گیا ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ نے الفاظ میں تاثیر رکھ دی ہے جو شخص بھی اس کو پڑھے گا ،تاثیر حاصل ہوجائے گی یہ بات اس لئے بتادی کہ بعض اوقات لوگ یہ دیکھ کر کہ اس کے تعویذ بڑے کار گر ہوتے ہیں اس کی جھاڑ پھونک بڑی کامیاب ہوتی ہے، اس کو ’’پیر صاحب ‘‘بنالیتے ہیں اور اس کو اپنا مقتدیٰ قرار دیتے ہیں ،چاہے اس شخص کی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہو ، چاہے اس کی زندگی سنت کے مطابق نہ ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی اتباع کرنے والے بھی خلاف شرع امور کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
ایک عامل کا وحشت ناک واقعہ
میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک وحشت ناک منظر دیکھا ،وہ یہ کہ ایک مسجد میں جانا ہوا معلوم ہوا کہ یہاں ایک عامل صاحب آئے ہوئے ہیں ، نماز اور سنت پڑھ کر باہر نکلا تو دیکھا کہ باہر لوگوں کی دورو یہ لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔ اور عامل صاحب مسجد سے باہر نکلے تو لوگ قطار میں کھڑے ہوئے ہی تھے انھوں نے اپنے منھ کھول دئے اور پھر پیر صاحب نے ایک ایک شخص کے منھ کے اندر تھوکنا شروع کردیا۔ ایک شخص داہنی طرف ،پھر بائیں طرف کے منھ میں تھوکتے، اس طرح ہر شخص کے منھ میں اپنا بلغم اور تھوک ڈالتے جارہے تھے اور پھر آخر میں کچھ لوگ بالٹیاں ،ڈونگے اور جگ لئے کھڑے تھے اور ہر ایک اس انتظار میں تھا کہ پیر صاحب اس کے اندر تھوک دیں تاکہ اس کی برکتیں اس کو حاصل ہو جائیں ۔ یہ بات اس حد تک اس لئے پہنچی تھی کہ اس کے تعویذ گنڈے کار آمد ہوتے تھے ۔
حاصل کلام
خدا کے لئے اس معاملہ میں اپنے مزاج کے اندر اعتدال پیدا کریں راستہ وہی ہے جو جناب رسول اللہ انے اختیار فرمایا ،یا آپ کے صحابہ کرام نے اختیار فرمایا۔ اور یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ اصل چیز براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور مانگنا ہے، کہ یا اللہ میرا یہ کام کردیجئے ۔ اس سے بہتر کوئی تعویذ نہیں ، اس سے بہتر کوئی کام نہیں اور یہ جھاڑ پھونک اور یہ تعویذ کوئی عبادت نہیں ،بلکہ علاج کا ایک طریقہ ہے اس پر کوئی اجر و ثواب مرتب نہیں ہوتا یہی وجہ سے کہ اس کی اجرت لینا دینا بھی جائز ہے ،اگر یہ عبادت ہوتی تو اس پر اجرت لینا جائز نہ ہوتا ، کیونکہ کسی عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں مثلاً کوئی شخص تلاوت کرے اور اس پر اجرت لے تو یہ حرام ہے، لیکن تعویذ پر اجرت لینا جائز ہے۔ بہر حال ،اگر واقعتا ضرورت پیش آجائے تو حدود وقیود میں رہ کر اس کو استعمال کر سکتے ہیں ، لیکن اس حد ود وقیود سے آگے بڑھنا اور ہر وقت انہی تعویذ گنڈوں کی فکر میں رہنا یہ کوئی سنت کا طریقہ نہیں ، اور حدیث شریف میں یہ جو فرمایا کہ وہ لوگ بلاحساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونگے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے اس حدیث کے ایک معنی تو میں نے بتادیئے کہ اس سے زمانہ جاہیت میں کی جانے والی جھاڑ پھونک مراد ہے۔اور بعض علماء نے فرمایا کہ ایک حدیث میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ جو جائز جھاڑ پھونک ہے اس میں بھی غلوا ور مبالغہ ، اور اس میں زیادہ انہماک بھی پسند یدہ نہیں ، بلکہ آدمی اصل بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھے اور جب ضرورت پیش آئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، یہی بہترین علاج ہے، اس کے نتیجے میں یہ بشارت بھی حاصل ہوگی، جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو اس کا مصداق بنادے اور ہم سب کو اللہ تعالیٰ جنت میں بلا حساب داخلہ نصیب فرمادے ۔ آمین

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

(اصلاحی خطبات – جلد 15)