خطاب:حضرت مولا نا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب ____________ ذیشان علی صادق آبادی

پچھلے دنوں نائب رئیس جامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم برطانیہ تشریف لے گئے تھے ، دیگر مواقع کے علاوہ ۲۷؍شوال ۱۴۳۷ ھ کو لندن کے مسلم سینٹر میں علماء کرام کے عظیم الشان اجتماع سے بھی خطاب فرمایا۔یہ خطاب آج کل کے حالات میں تمام مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل ہے ، زوال کے اسباب کی نشاندہی بھی ہے اور بحران سے نکلنے کا طریقہ بھی ۔ یہ خطاب ہدیۂ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ادارہ)

اختلافات کی حدود کا تحفظ ہر قیمت پرضروری ہے
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا
الحمدللّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ومولانا محمد خاتم النبیین وعلی اٰلہ واصحابہ اجمعین و علی کل من تبعہم باحسان الی یوم الدین اما بعد۔۔۔۔۔۔

حضرات علماء کرام ومشائخ عظام!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور پھر ادارہ الخیر فاؤنڈیشن کے سربراہ جناب محمد قاسم صاحب اور مولانا عبد المنتقم صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھ ناچیز کو علماء کرام کے اس چیدہ مجمع میں حاضری اور ان سے ملاقات کا اس طرح شرف عطا فرمایا جو شاید صرف ایک دن کے نوٹس پر یہ اجتماع بلایا گیا میں آ پ سب حضرات کا دل سے ممنون ہوں کہ آپ نے اتنے مختصر نوٹس پر تشریف آوری کا اہتمام فرماکر مجھے اپنی ملاقات کا شرف عطا فرمایا۔
دوامتزاج
میرے ذہن میں حضرات علماء کرام کی محفل میں ہمیشہ دو قسم کے مختلف جذبات کاامتزاج ہوتا ہے ایک تو الحمد للہ مسرت ہوتی ہے کہ میں اپنی برادری میں اپنے بھائیوں اور اپنے اکابر سے ملنے کا شرف حاصل کررہا ہوں اس پر خوشی ہوتی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ میں ایک ادنی سا طالبعلم ہوں اور حضرات علماء کرام میرے لیے سرتاج اور قابل صد احترام وتکریم ہیں ان کی زیارت اور ان سے ملاقات بذات خود ایک سعادت ہے اور دوسری طرف جب مجھے علماء کرام سے خطاب اور ان سے کچھ گزارشات پیش کرنے کی دعوت دیجاتی ہے تو دوسرا امتزاج یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں کہاں اور علماء کرام کہاں؟ میں اس لائق نہیں ہوں کہ ان کی خدمت میں کوئی نصیحت یا گذارش پیش کروں ان کے سامنے لب کشائی اپنی حیثیت سے زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی جب کوئی ایسا موقع آتا ہے تو میں یہ تصور کرلیتا ہوں کہ ہم نے جن دینی مدارس میں پڑھا ہے وہاں ایک طریقہ رائج ہے جس سے ہم سب واقف ہیں کہ جب استاد سے سبق پڑھ لیا جاتا ہے تو طلبہ آ پس میں بیٹھ کر ایک کو منتخب کرلیتے ہیں جو ان کو تکرار کرواتا ہے تکرار کروانے والا بھی ساتھی ہوتا ہے تکرار کروانے سے وہ استاد نہیں بن جاتا کبھی ایک ساتھی تکرار کرواتا ہے کبھی دوسرا کرواتا ہے ،تو میں ایسے موقع پر یہ فرض کرلیتا ہوں کہ میں نے علماء کرام سے جو باتیں سنی ہیں اور الحمد للہ جو دل میں بیٹھی ہوئی ہیں میں انکا تکرار کروارہا ہوں اللہ تبارک وتعالیٰ صحیح طریقے سے وہ تکرار کروانے کی توفیق عطا فرمادیں جو کچھ بھی عرض کروں گا وہ ان شاء اللہ اسی روشنی میں عرض کروں گا جو اپنے اکابر سے سنا، سیکھا اور پڑھا ہے اس لیے میری ذاتی بات کوئی نہیں ہے بلکہ اپنے اکابر سے سنی ہوئی باتیں ہیں البتہ اس میں یہ ہوسکتا ہے کہ اپنا استنباط بھی ہو اور آپ سب حضرات واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے استنباط کا دروازہ کھولا ہوا ہے اورحقیقت میںاس کی وجہ بھی انہی اکابر کا روحانی فیض ہے۔
اختلاف کے ہوتے ہوئے احترام کو ملحوظ رکھنا
میں نے ایک فقہی مسئلہ پر تحریر لکھی تھی اور اس میں احترام کے ساتھ، ادب کے ساتھ اور تمام رعایتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک بڑے عالم سے فقہی طور پر استنباط میں تھوڑا سا اختلاف کیا تھا اور وہ مسئلہ لکھ کر میں نے اپنے والد ماجدؒ کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے اس پر ایک تحریر اور بڑا ہی معنی خیز جملہ لکھا کہ الحمد للہ میں نے تحریر دیکھی اور میں اس سے متفق ہوں اور یہ صحیح ہے اور الحمد للہ اپنے اکابر سے فقہی اختلاف رکھتے ہوئے ان کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھنا یہ سلامت فکر کی دلیل ہے اور اپنے بڑے سے کسی مسئلے میں علمی اختلاف بھی کیا جاتا ہے تو یہ درحقیقت اسی بڑے کا روحانی فیض ہوتا ہے لہذا اس اختلاف کو بے ادبی پر محمول نہیں کرنا چاہیے کہ اصل میں علم تو انہی کے پاس تھا اور اس کے نتیجے میں مختلف شعاعیں نکلیں ایک شعاع ایک طرف چلی گئی دوسری شعاع دوسری طرف چلی گئی لیکن اس کا مرکز اور چشمہ ایک ہی ہے۔
اس لیے استنباط کے اندر اللہ تعالیٰ نے بڑا توسع رکھا ہے لہذا جو بھی عرض کروں گا اپنے اکابر ہی کی تعلیمات اور انکی روشنی میں کروں گا اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے مطابق صحیح اور حق بات ،حق طریقے اور حق نیت سے کہنے کی توفیق عطا فرمادیں۔
وسائل اور آبادی کی بہتات کے باوجود مسلمان مسائل سے دوچار ہیں
بات دراصل یہ ہے کہ آج عالم اسلام مشرق سے مغرب تک ایسے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے جن سے شاید مسلمان کبھی دوچار نہ ہوئے ہوںعجیب مسئلہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اسوقت جو وسائل ہیں اور آبادی ہے تاریخ میں کبھی اتنی آبادی اور وسائل میسر نہ تھے وسائل کا حال یہ ہے کہ دنیا کے نقشہ پر اگر نظر ڈالیں تو دنیا کے قلب میں مسلمان بیٹھے ہیں دنیا کی عظیم ترین اور تجارتی لحاظ سے شہ رگ سمجھی جانے والی شاہراہیں آبنائے فاسفورس، نہر سوئز اور خلیج عدن مسلمانوں کے پاس ہیں اور وسائل کا عالم یہ ہے کہ تیل جس کو آج کل کی اصطلاح میں زر سیال کہا جاتا ہے اس پر مسلمانوں کو تقریباً اجارہ داری حاصل ہے اور تمام مراکز ان کے پاس ہیں دولت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دولت بھی اتنی کبھی نہ تھی جتنی آج مسلمانوں کے پاس ہے لیکن اس ساری آبادی اور وسائل کی بہتات کے باوجود مسلمان جہاں بھی ہیں کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار ہیں اور اس میں ا س طرح گرفتار ہیں کہ ان میں آگے بڑھنے کی جرأت اور حوصلہ پیدا نہیں ہورہا اور اس مسئلے سے نمٹنے کی راہ نہیں مل رہی۔
آج مسلمان تنکوں کی طرح ہیں
یہ عجیب صورتحال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی بہتات کے باوجود مسلمان کبھی اتنے بڑے مسائل سے دوچار نہیں ہوئے جتنے آج ہیں ،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب لوگ مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کو ایسے دعوت دینگے جیسے دستر خوان پر کھانے کی دعوت دیجاتی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہوگی، فرمایا تعداد تو بہت ہوگی لیکن تعداد کی زیادتی کے باوجود وہ ایسے ہوں گے جیسے سیلاب میں بہتے ہوئے تنکے ’’لکنّہم غثاء کغثاء السیل‘‘ ان تنکوں کو کوئی اگر گننا چاہے تو انگنت ہونے کی وجہ سے گن بھی نہیں سکتا لیکن اس کے باوجود ان کی حیثیت ایسی ہے کہ سیلاب جس طرف بہا کر لے جارہا ہے اس طرف وہ بہے جارہے ہیں تو یہ کیفیت آج ہمیں آنکھوں سے نظر آرہی ہے یہ کیفیت کیوں پیدا ہوئی اور اس کے اسباب کیا ہیں ۔
اس کے اسباب کیاہیں؟
جب ہم اس پر بات کرتے ہیں تو اکثر وبیشتر زبان پر یہ آتا ہے کہ یہ ہمارے دشمنوں کی سازشیں ہیں جنہوں نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے ہم چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں ان کی سازشوں کے نتیجے میں ہم بے عزت بھی ہیں اور اپنے مسائل سے دوچار بھی ہیں یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دشمن سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں ؟ دشمن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ سے محبت کرے گا آپ کی مدد کرے گا آپ کی ترقی کے اسباب پیدا کرے گا دشمن کا تو کام ہی یہی ہے اسکا کیا شکوہ ؟ وہ اگر دشمن ہے تو دشمنی ہی کرے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ دشمن تب تک اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کوئی خرابی ہمارے اندر موجود نہ ہو ہمارے اندر اگر خرابی نہیں تو دشمن کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اسلام کی تاریخ ہمیشہ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچایا دشمن کی سازشیںکامیاب ہوئیں، دشمن ان پر فتح یاب ہوا تو وہ اپنی بہادری اور طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی ہی کسی خرابی یا کسی نقصان کی وجہ سے ہوا، لہذا ہم جو آپس میں بیٹھ کر مجلسوں میں برا بھلا کہتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ یہ کردیا اور فلاں نے یہ کردیا تو اصل بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے اپنے گریبانوں میں بھی منہ ڈال کر دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا وجہ ہے کہ دشمن کامیاب ہورہا ہے اور ہمارے خلاف اس کی تدبیریں کار گر ہورہی ہیں یہ نکتہ ایساہے جو ہمارے لیے ایک بہت بڑا لمحہ فکر یہ ہے اور افسوس کا سامان پیدا کرتا ہے۔ اس موقع پر تمام خرابیوں او رانکے اسباب کا احاطہ ممکن نہیں ۔
مسلمانوں کے زوال کے دوسبب
لیکن میں حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن قدس اللہ سرہٗ کا ایک جملہ نقل کرتا ہوں میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہٗ ان کے مرید تھے فرمایا کرتے تھے کہ جب سب بچے کھیل کود کیلئے جایا کرتے تھے تو میں تب بھی حضرت شیخ الہند ؒ کی خدمت میں بیٹھا رہتا تھا حضرت دیوبند میں دارالعلوم کے احاطہ میں تشریف فرما ہوا کرتے تھے اور دارالعلوم کے اساتذہ اور طلباء جن کو آنا ہوتا تھا جمع ہوجایا کرتے تھے اور حضرت کی خدمت میں بیٹھتے تھے اور حضرت مختلف باتیں فرمایا کرتے تھے حضرت والدماجدؒ کو بہت سی باتیں یاد تھیں اور اکثر ان کا تذکرہ فرماتے تھے تو ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب حضرت شیخ الہند مالٹا کی جیل سے دیوبند واپس تشریف لائے تو اسی طرح کی مجلس میں تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا بھائی! ہم نے مالٹا کی تنہائیوں میں دو سبق سیکھے، یہ کو ن کہہ رہا ہے جن کے بارے میں حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ انکو شیخ الہند کہنا ان کی توہین ہے یہ اصل میں شیخ العرب والعجم ہیں اور جنہوں نے اسّی برس قرآن کی تشریح وتفسیر میں گزاردیے اور پھر اسلام کو سربلند کرنے کے لیے سیاسی تحریک چلائی اس کے تمام نشیب وفراز سے واقف ہوئے اب اسّی سالہ زندگی کے نچوڑ کے طور پر فرمارہے ہیں کہ میںنے مالٹا کی تنہائیوں میں دو سبق سیکھے سب لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے کہ اتنے تجربہ کار بزرگ نے کونسے دو سبق مالٹا کی تنہائیوں میں حاصل کیے فرمایا کہ مسلمانوں کے زوال کے میرے نزدیک دوسبب ہیں جب تک ان کو زائل نہیں کیا جائے گا مسلمان ابھر نہیں سکتے۔
ایک سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کو چھوڑدیا قرآن کریم کے جو حقوق اس کی تلاوت کرنے، اس کو سمجھنے اس پر عمل کرنے اور اس کی دعوت کو پھیلانے کے تھے وہ مسلمانوں نے ترک کردیے اور دوسرا سبب مسلمانوں کے باہمی افتراق اورآپس کے جھگڑے ہیں جب تک یہ دونوں زائل نہیں ہوں گے مسلمانوں کی مشکلات کا حل نہیں نکلے گا پھر فرمایا کہ میں اپنی آئندہ زندگی انہی دوکاموں پر وقف کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کی خدمت اور نشر واشاعت اور مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی فکر کروں۔
ان دو باتوں میں سے پہلی بات کی تفسیر میںمیں اسوقت نہیں جاتا کیونکہ اس سے آپ سب حضرات واقف ہیںاور کوشش بھی کررہے ہیں لیکن دوسری بات جو درحقیقت قرآن پر عمل کا ہی ایک لازمی نتیجہ ہے وہ باہمی افتراق واختلاف، شقاق،جھگڑے، فرقہ واریت ،ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی ہے جس نے ہمیں تباہ کردیا ہے اور جب تک یہ صورتحال درست نہیں ہوگی تب تک ہمیں دشمنوں کا شکوہ کرنے کااختیار وحق نہیں اگر ہم خود اپنے افتراق وانتشار کو ختم اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے قرآن کے سبق ’’ وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ‘‘ (آل عمران :۱۰۳) کی طرف نہیں آئیں گے تو دشمن اس افتراق کو استعمال کرتا رہے گا اور ان سے اس کے سوا کیا توقع کی جاسکتی ہے میں اس پر کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جو افتراق وانتشار باہمی لڑائی جھگڑے اور اختلافات ہیں انہوں نے مسلمانوں کی قوت کو پارہ پارہ کردیا ہے اور اس کے نتیجے میں دشمنوں کو بجا طور پریہ موقع مل گیا ہے کہ وہ خود ہمیں ہمارے خلاف استعمال کریں یہاں یہ سمجھنے کی بات ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سنت، صحابہ کرام ؓ کے عمل اور بزرگانِ دین کے تعامل نے یہ بات واضح کردی ہے کہ اختلاف کی بہت ساری قسمیں ہوتی ہیں کفر وایمان کا اختلاف، فسق وفجوراور صلاح کا اختلاف، بدعت وسنت کا اختلاف، اجتہاد کااختلاف، مسلک کا اختلاف اور مزاج ومذاق کا اختلاف یہ سب اختلاف کی مختلف صورتیں اور مدارج ہیں ہر اختلاف کا حکم علیحدہ ہے۔
کفروایمان کا اختلاف حق و باطل کا اختلاف ہے لیکن اس اختلاف کا مطلب بھی لڑائی اور نفرتیں نہیں بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحبِ ایمان اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اس پر عمل پیرا ہو لیکن جو غیر مسلم ہے اس سے نفرت نہیں نفرت کفر سے ہے کافر کی ذات سے نہیں نفرت فسق سے ہے فاسق کی ذات سے نہیں لہذا غیر مسلموں سے نفرت کرنااسلام اور ہمارے دین نے نہیں سکھایا جو شخص کفر کی گمراہی میں مبتلا ہے وہ درحقیقت غصے اور نفرت کا مستحق نہیں بلکہ رحمدلی کا مستحق ہے یعنی یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو غلط راستے سے نکال کر صحیح راستے پر لے آئیں ، نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور آگ کے اندر پروانے آ آ کرگر رہے ہیں اور میں کولیاں بھر بھر کے ان کو آگ سے بچانااورہٹانا چاہتا ہوں اور اس فکر میں ہوں کسی طرح یہ بچ جائیں، کافر لوگ نفرت کررہے ہیں اور نفرت ہی نہیں کررہے بلکہ گالیاں دے رہے ہیں پتھر برسارہے ہیں لیکن نبی رحمت سرورِدو عالم ﷺ فرماتے ہیں ’’ اللَّہُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْن ‘‘ اے رب ان کی مغفرت فرما دیجئے ان کو ابھی حقیقت کا پتا نہیں ہے اگر نفرت ہوتی تو یہ نہ فرماتے کہ یا اللہ ان کو تباہ نہ کیجئے ان کو برباد نہ کیجئے ہوسکتا ہے کہ انکی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو حق کے علم بردار ہوں تو جو لوگ پتھر برسارہے ہیں ، گالیاں دے رہے ہیں، دشمنی کررہے ہیںان کے ساتھ بھی رسول کریم ﷺ کا یہ معاملہ تھا کہ راتوں کو رورہے ہیں اور جان ہلکان کیے ہوئے ہیں کہ کسی طرح یہ راہ راست پر آجائیں حتی کہ اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا ’’ لَعَلَّکَ بَاخِغُ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْن ‘‘ (الشعراء آیت ۳) کہ کیا آپ اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے اس بناء پر کہ یہ ایمان نہیں لارہے آپ نے اپنا فریضہ ادا کردیا قرآن آپ کو تسلی دینے سے بھر اہوا ہے تو اگر نفرت ہوتی تو یہ درد مندی نہ ہوتی ۔
جناب شرافت حسین مرحوم
آپ سب حضرات کو معلوم ہوگا میرے خسر جناب شرافت حسین مرحوم انکی وفات کا بہت سے لوگوں کو پتا چل گیا ہے اور لوگ تعزیت بھی کررہے ہیں وہ عالم نہیں تھے تاجر تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی صحبت عطافرمائی تھی اور اس کی وجہ سے میںنے ان جیسے اتنے بے نفس اور اپنی ذات کو فنا کیے ہوئے انسان بہت کم دیکھے ہیںساری زندگی میں نے ان کی زبان سے کسی کی غیبت اور شکایت نہیں سنی لیکن اگر کبھی برسبیل تذکرہ کسی کا ذکر آجاتا کہ وہ دیندار ہے یا نہیں تو انکی زبان سے ہمیشہ ایک عجیب جملہ نکلتا کہ بیچارے ذرا مسجد میں نظر نہیں آتے تو بیچارے کا لفظ استعمال کرتے تھے کہ بیچارے انکا دین سے زیادہ تعلق نہیں ہے یعنی ایسے ذکر کرتے تھے جیسے کوئی بیماری میں مبتلا ہے کہ بیچارے کو کینسر ہوگیا بیچارے کو ٹی – بی ہوگئی ہے یہ تعلیم ملی تھی کہ کسی کافر کے ساتھ بھی نفرت کا نہیں بلکہ محبت کا معاملہ کرنا ہے البتہ محبت کے عنوان مختلف ہوتے ہیں ایک عنوان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام کی ہدایت عطا فرمادیں جب اس محبت کے ساتھ دعوت ہوتی ہے تو دعوت میں اثر او ر اس کا فائدہ ہوتاہے جب غیر مسلموں کو پتا چلتا ہے کہ یہ ہم سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرتے ہیں یہ ہمارے بدخواہ نہیں بلکہ خیر خواہ ہیں تو پھر قرب پیدا ہوتا ہے پھر اگر ایمان کا نور قلب میں موجود ہوتو اس قرب کے نتیجے میں وہ نور دوسرے کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
"مالابار” میں اسلام کیسے پہنچا؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کو دیکھئے ہم میں سے اکثر وبیشتر کیسے مسلمان ہوئے ہم کس کے ممنون احسان ہیں ہندوستان میں سب سے پہلے ’’مالا بار‘‘ کے علاقے میں اسلام آیا وہاں کوئی تبلیغی جماعت یا کوئی جہادی تحریک نہیں پہنچی تھی بلکہ وہاں صحابہ کرام ؓ تجارت کے لیے پہنچے تھے انہوں نے وہاں کوئی تبلیغی مہم نہیں چلائی تھی بلکہ وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ جس محبت ، حسن سلوک اوراخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کیا اس نے قرب پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلمان کردیا اور آج ہم لوگ انہی کی بدولت مسلمان ہیں تو ایک اختلاف کفر واسلام اور حق وباطل کا اختلاف ہے مگر اس میں بھی نفرت نہیں بلکہ محبت، ہمدردی اور خیر خواہی ہے، ہم سے اگر پوچھا جائے کہ فلاں شخص حق پرہے یا باطل پرتو ہم کہیں گے باطل پرہے لیکن ایسے ہی کہیں گے جیسے کسی بیمار کو کہا جاتا ہے کہ اس کو فلان بیماری لاحق ہے لیکن اس بیماری کی وجہ سے اس پر غصہ اور اس سے نفرت نہیں کی جاتی بلکہ محبت اور ہمدردی کی جاتی ہے۔
آج جہاد کی حقیقت مسخ ہوکر رہ گئی ہے
تو اختلاف کی ایک سطح یہ ہے ہاں فرض کریں اگر کسی وقت ضرورت پیش آجائے کہ وہ حملہ آور ہوں اور دفاع کرنا پڑے تو پھر بیشک جہاد بھی شریعت کا ایک اہم رکن ہے لیکن آج جہاد کو بدنام کرکے اتنے غلط معنی پر محمول کیا جارہا ہے جس سے جہاد کی حقیقت مسخ ہوکر رہ گئی ہے جہاد نبی کریمﷺ نے مشروع فرمایا قرآن نے اس کی تعلیم دی ہمیں اس کے اسلام کے ایک اہم رکن ہونے سے کبھی شرمانا نہیں چاہیے جہاد ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے لیکن وہ جہاد جو نبی کریم ﷺ نے سکھایا تھا وہ نہیں جس کا نام لے کر آج معصوموں کی گردنیں اڑائی جارہی ہیں اور خود کش حملوں کے ذریعہ لوگوں کی جانیں لی جارہی ہیں وہ جہاد جس کے ہر لشکر کو نبی کریم ﷺ کی یہ تعلیم تھی کہ کسی بچے، عورت، بوڑھے، اور عبادت میں مشغول لوگوں پر ہاتھ نہ اٹھانا یہ اس دور کا جہاد تھا اوریہ اس زمانے میں آپﷺ فرمارہے ہیں جب جنگ کا کوئی قانون ضابطہ نہیں تھا ۔
جنگ کے معنی یہ ہیں کہ جب دشمن سامنے آجائے تو ہر کام جائز ہے لیکن جوجہاد آپﷺ نے سکھایا ا س میں حدود وقوانین اور ضوابط متعین فرمائے کہ کب جائز کب ناجائز کتنا جائز کتنا ناجائز ہے لہذا آج جہاد کو جو غلط طریقے سے بدنام کیا جارہاہے اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے کہ کفر واسلام کے اختلاف میں اصل چیز نفرت نہیں بلکہ محبت وہمدردی اوردعوت ہے ضرورت کے وقت جہاد بھی ہے لیکن تمام قواعد وضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے ہے تویہ اختلاف کا پہلا درجہ تھا ۔
دوسرا اختلاف فسق وفجور اور صلاح کا ہے اس میں بھی یہی جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم انکو فسق وفجور سے نکالنے کے لیے جو بہتر راستہ ہو اس کو اختیا ر کریں ، تیسرا درجہ اجتہادی اختلاف کا ہے جو قرآن و سنت کی تشریح میں مسائل شریعہ کے تعین میں ہے یہ اختلاف صحابہ کرام ؓ کے درمیان بھی ہوا لیکن حضرت علامہ ابن قیم ؒ ’’ اعلام الموقعین ‘‘ میں اور علامہ ابن البر ؒ” جامع بیان العلم وفضلہ” میں فرماتے ہیں کہ تمام اختلافا ت کے باوجو د کسی صحابی کے بارے میں منقول نہیں کہ انہوں نے دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا ہوکہ ان کا اجتہاد میرے اجتہاد سے مختلف ہے یہاں تک کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کا مسلک کچھ اور ہے لیکن امام نے اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھائی تو عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طرح پڑھی کیونکہ ’’ الاختلاف شر‘‘ اختلاف شر ہے اجتہادی اختلاف کے باوجود محبتیں بھی ہیں باہمی تعاون ، ایک د وسرے کے ساتھ تناصر اور آپس میں احترام بھی ہے اور اس سے کبھی بھی کسی شقاق نے جنم نہیںلیا، اس سے آگے بڑھ کر مزاج ومذاق کا اختلاف ہے سب کچھ متحد ہے لیکن ایک کا مزاج ایک جیسا ہے دوسرے کا مزاج دوسرے جیسا ہے ہم نے جو کر رکھا ہے وہ یہ کہ ہم تمام اختلافات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں اگر کسی سے اختلاف ہوا تو اب وہ ایسا اختلاف ہے کہ میں اس کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتا اس کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوسکتا اسکی دعوت قبول نہیں کرسکتا اگر بیٹھوں گا تو گویا حق کی مخالفت کررہا ہوں گا اس صورتحال نے ہمیں فرقوں میں بانٹ دیا ہے اب نام یہ نہیں کہ ہم مسلمان ہیں دین کی خدمت کررہے ہیں نام یہ ہے کہ ہم اپنے مسلک کی خدمت کررہے ہیںنام یہ ہے کہ ہم دیوبندی، بریلوی ،اہلحدیث اور سلفی ہیں لہذا اس کے نتیجے میں اسلام کے جو مشترک مقاصد تھے وہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں یہ وہ اسباب ہیں جو حضرت شیخ الہندؒ نے بیان فرمائے ہیں تو بھائیو! میں دکھی دل کے ساتھ پہلے اپنے نفس سے خطاب اور پھر حاضرین سے گذارش کرتا ہوں کہ خدا کے لیے یہ عہد کریں کہ اختلافات کی حدود کو قائم کرنے کا جو طریقہ ہمارے اکابرین نے متعین فرمایا ہے اسکا ہر قیمت پر تحفظ ہو۔
مشترک مقاصد پر مل کر عمل کیاجائے
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کچھ فساد ہواحکیم الامت حضرت تھانوی ؒ نے اس بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ مسلمان زیادہ تر وہاں تعزیہ نکالتے ہیں اور تعزیہ صرف شیعہ حضرات نہیں نکالتے بلکہ اہل سنت کے بھی بہت سارے حضرات نکالتے ہیں اور ہندو کہتے تھے کہ ہم تعزیہ نہیں نکالنے دیں گے تو اگر کوئی اور ہوتا تو کہتا کہ بھئی ہندو بہت اچھی بات کررہے ہیں کہ تعزیہ کی بدعت سے مسلمانوں کو نجات دلانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا نہیں بلکہ ان تعزیہ نکالنے والوں کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ مقابلہ کفر سے ہے اس واسطے کہ وہ مخالفت اس وجہ سے نہیں کررہے کہ تعزیہ بدعت ہے بلکہ اس لیے کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک علامت ہے تو ہر مقام پر دیکھنا پڑتا ہے کہ اختلاف کو کس حد تک لے جایا جائے اور کون سے ایسے مشترک مقاصد ہیں جن پر مل کر عمل کیاجائے اس واسطے درد دل اور بے تکلفی کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہمارا ملک بھی ان اختلافات اور فرقہ واریوں کا شکار ہے۔
لیکن آپ حضرات معاف کریں مجھے یہاں برطانیہ میں خاص طور پر اختلافات کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آرہا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوںپر جیسے رویت ہلال ایک ایسا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو پا رہا محلے ، مسجدیں اور خاندان تقسیم ہیں یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہادی مسئلے میں کوئی جانب باطل محض نہیں ہوتی اگر مسلمان اپنا اتحاد برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک ایسے عمل پر بھی متفق ہوجائیں جس کی اجتہاد میں گنجائش ہے تو ہونا چاہیے لیکن جھگڑے اور اختلافات ہیں جس کی وجہ سے قوم بٹی ہوئی ہے اور اپنے مشترکہ مقاصد کو بھولی ہوئی ہے۔
نوجوانوں کو صحیح راستے پر لانا ہم سب کا مشترک فریضہ ہے
یہ جو آج اسلامو فوبیا کا نعرہ لگایا جاتا ہے اس اسلامو فوبیاکے ایک بڑے ذمہ دار ہم خود ہیں کہ ہم سے کچھ نوجوان جو بظاہر مخلص بھی نظر آتے ہیں ان کو جہاد کا غلط مطلب بتاکر گمراہ کیا جارہا ہے اور انہیں یہ کہا جارہا ہے کہ تم ہتھیار اُٹھاکر شریعت نافذ کرو چاہے مسلمان ملک میں ہو یا غیر مسلم ملکوں میں اور وہ نوجوان ہتھیار اٹھاکر اور جہاد کے احکام کے بالکل برعکس تشدد اور دہشت گردی پھیلاکر اس کو اسلام کے نام سے منسوب کرنا چاہتے ہیں ان نوجوانوں کو صحیح ہدایت دینا اور صحیح راستے پر لانا ہم سب کا مشترک فریضہ ہے اس کام کے لیے جب تک سارے مسلمان اپنے سب اختلافات بھلاکر اور پس پشت ڈال کر کوشش نہیں کرینگے اس وقت تک صورتحال یونہی رہے گی کہ اسلام کوبھی بدنام کرنا ہوگا جہاد کو بھی بدنام کرنا ہوگا اور مسلمانوں کو بھی بدنام کرنا ہوگا اور مسلمان گویا خود اپنے اوپر دہشت گردی کا ٹھپہ لگالیں گے۔
لہذامیں گذارش کرتا ہوں کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں اور نئی نسلوں کو صحیح تعلیم وتربیت دے کر انہیں حقیقت حال سے آگاہ کریں اور انہیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچائیں۔ ٹھیک ہے یہ بات کہی جاتی ہے اور شاید بڑی حد تک صحیح بھی ہے اور اس کے بہت سے قرائن بھی ہیں کہ جتنی بھی دہشت گرد تنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنا نام جہادی تنظیمیں رکھا ہوا ہے یہ سب لوگ دشمنوں کے کھڑے کیے ہوئے ہیں تاکہ مسلمانوں کو دہرانقصان پہنچایا جاسکے آپس میں لڑائیں بھی اور مسلمانوں کو بدنام بھی کریں کسی بھی تحریک کو جانچنے کا ایک بہت بڑا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اسکا Beneficiary کون ہے اسکا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ Beneficiary اگر کوئی ہے تو اسلام دشمن طاقتیں ہیں لہذا یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن ہماری کمزوری ہے کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کی صحیح تربیت کرنے اور ان کو حالات سے صحیح واقف کروانے میں کوتاہی کی ہے ۔
الحمدللہ آج چونکہ ماشاء اللہ اہل علم کا مجمع ہے اور ان حضرات کا جو اپنی اپنی جگہ مقتداء ہیں تو میں سب سے پہلے خود اور پھر آپ سے خطاب کررہا ہوں کہ آج کی اس محفل سے اگر ہم فائدہ اٹھائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی توفیق عطا فرمائیں کہ اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے رائے میں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن یہ شقاق کا ذریعہ نہ بنے میرے والد ماجدؒ کی کتاب ہے ’’وحدت امت‘‘ اسکا عربی ترجمہ ’’أخلاف ام شقاق‘‘ کے نام سے ہے اسمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’خلاف ‘‘اور چیز ہے ’’شقاق‘‘ اور چیز ہے ’’خلاف‘‘ برا نہیں رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن شقاق براہے جس کے نتیجے میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہوکر بیٹھ جائیں تو ان اختلافات کو بھلا کر اور پس پشت ڈال کر، آپ بے شک مدارس میں اختلافات کے علمی دلائل بیان کریں ،لیکن اس کو فرقہ واریت کا ذریعہ نہ بنائیں تمام مسالک اور مکاتب فکر مل کر اس فتنے کا سد باب کریں آج مسلمانوں کے خلاف غلط سلط پروپیگنڈہ ہورہا ہے ہمارا فرض ہے کہ اس پروپیگنڈے کا عالمانہ انداز میں مدلل جواب دیں اور اس فضاکو بدلنے کی کوشش کریں جو ہمارے خلاف ساری دنیا میں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
اگر ہم اس موضوع پر متفق ہوجائیں اور یہ جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوجائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں گی اوراللہ تعالیٰ ان مشکل حالات سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائیں گے لیکن مایوسی پیدا کرنا بری بات ہے لہذا مایوس ہونے کے بجائے صحیح راستہ اختیار کرکے اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ان حالات کو بدل دیں گے اور یہ ظلمتیں دور ہوں گی اور اجالا پھیلے گا۔

واٰخِرُ دَعْْوَانَا انِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْن۔
٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – ذوالحجه 1437 ھ)