جنگ بندی کے اعلان کے بعد احقر نے ایک مضمون لکھنا شروع کیاتھا جس کا عنوان تھا ’’ موجودہ جنگ نے ہمیں کیا سبق دئیے‘‘یہ ہنوز پورا نہیں ہوا تھا کہ برخوردار عزیز مولوی محمد تقی سلمہ مدرس دارالعلوم کراچی نے اسی موضوع پر ایک بہت اچھا مقالہ لکھ کر پیش کردیا۔ جس نے میرے ذہنی مسودہ کو پورا پورا لے لیا، اس لئے اب اُس کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ اس کو نافع ومفید بنائیں اور عزیز موصوف کے علم وعمل میں ترقیاں عطا فرماویں۔

بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
۹؍ جمادی الثانیہ ۱۳۸۵ھ

اب ہمیں کیا کرنا ہے؟
ایک پیغام
۴؍اکتوبر ۱۹۶۵ء

حمد وستائش اُس ذات کے لئے جس نے اس کا رخانہ عالم کو وُجود بخشا
اور
درود وسلام اُس کے آخری پیغمبرؐ پر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز!
۶؍ ستمبر سے لے کر ۲۲؍ ستمبر تک کے سترہ دن پاکستان کی تاریخ میں بالکل منفرد نوعیت کے حامل تھے، پچھلے اٹھارہ سال میں ہم پر اتنی صبر آزما مبارک ومسعود ، نازک اور پر مسرّت گھڑی پہلے کبھی نہیں آئی تھی، پاکستان پر بھارت کا اچانک حملہ بلاشبہ ہمارے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی، لیکن ایک ایسی آزمائش جو مسلمان کے لئے تشویش اور اضطراب کے بجائے مسرّت اور شادمانی کا پیغام لاتی ہے، سالہا سال کے بعد زمین وآسمان کی نگاہوں نے یہ حسین منظر دیکھا تھا کہ توحید کے فرزند خالق کائنات کی عظمت کے نعرے بلند کرتے ہوئے کفر سے ٹکرارہے تھے، اُسی جذبۂ ایمان، اُسی ذوقِ جاں نثاری اور اُسی شوقِ شہادت کے ساتھ ، ایک بار پھر آگ اور لوہے کی چٹانوں نے طاقت کے نشے میں جھوم کر مسلمان کے جذبۂ ایمان کو للکارا تھا، اور مسلمان کے جذبۂ ایمان نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ میدانِ کار زار میں فتح کا مدار فوجوں کی کثرت ، اسلحہ کی بہتات اور ساز وسامان کی فراوانی پر نہیں ہوتا، اس کے لئے خدا پر مکمل ایمان اور بھروسے کی ضرورت ہے، دل میں امڈتے ہوئے بیتاب ولولوں کی ضرورت ہے، اور اُس ذوق شہادت کی ضرورت ہے جو انسان کو آگے میں کود نے اور خون میں نہانے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔
لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر ہمارے جانبازوں نے سرفروشی اور جاں نثاری کی تاریخ میں ایک ایسے تابناک باب کا اضافہ کیا ہے جو رہتی دُنیا تک اس حقیقت کی تائید کرتا رہے گا کہ ؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اپنے سے پانچ گنی زیادہ فوج کے سامنے عزم واستقلال کے جن کارناموں پر آج پوری دُنیا حیرت میں ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہماری یہ فتح اُس قادر مطلق کا ایک غیبی انعام تھی جو تین سو تیرہ کو ہزار پر فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ دُنیا جانتی ہے کہ ہمارا دشمن ہم سے کئی گنی زیادہ فوج ، بہترین اسلحہ اور لاؤ لشکر کا مالک تھا، اور ہماری ظاہری قوت اس سے کہیں کم تھی یہ خالص اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ایک طرف اُس نے ہمارے جانبازوں کو آگ کے سمندر سے کھیلنے اور شعلہ بار توپوں کے سامنے کوہِ گراں بن جانے کا حوصلہ عطا فرمایا۔ اور دوسری طرف ہمارے تمام باہمی اختلافات کو مٹاکر ہمیں ایک ہی جسم وجان کی طرح متحد کردیا، اور جب صدر ایوب نے اپنے دس کروڑ عوام کو لااِلٰہ إلا اللہ کا واسطہ دے کر پکارا تو درّۂ خیبر سے لے کر خاسیا جنتاؔ کے دامن تک پوری قوم ایک آہنی دیوار بن گئی جس سے ٹکراکر دشمن خود اپنا سر پھوڑ نے کے سوا کچھ حاصل نہ کرسکا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا وہ کرم ہے جس کی ہماری بداعمالیوں کے پیش نظر کوئی توقع نہ تھی اور اگر ہمارا ہر رونگٹا زبان بن کر مدّہ العمر اس نعمت پر شکر ادا کرے تو حق شکر ادا نہیں ہوسکتا۔
اس فتح مبین کے بعد جو اسلام کے ایک معجزے سے کم نہیں ہے ، آج جنگ بند ہوچکی ہے، پاکستان نے سلامتی کونسل کی قرار داد منظور کرکے اسے مسئلہ کشمیر کے پر امن تصفیہ کا ایک اور موقع دیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اب ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ سکتے ہیں، ووقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم امن کے اس وقفے کو غنیمت سمجھ کر اپنی سرگرمیوں کی و اور تیز کردیں، اور خدا نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے جو فتح عطا کی ہے اس پر شکر بجالاتے ہوئے اپنی زندگی میں ایک ایسا حسین انقلاب برپا کریں جو ہمیں اس کی مزید رحمتوں کامستحق بنادے، ہم نے جنگ بندی کے بعد سے اپنی جد وجہد کے ایک نئے دور میں قدم رکھا ہے اور اس موقعہ پر اقبال ؒ کی روح ہم سے پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ ع

سپر از دست مینداز کہ جنگ ست ہنوز

ہم نے ان سترہ دِنوں میں جو جنگ لڑی ہے، وہ ملک گیری کی ہوس، اقتدار کی خواہش یا مال ودولت کی تمنا میں نہیں لڑی، ہماری جنگ اسلام اور کفر کی جنگ تھی، حق اور باطل کی جنگ تھی، انصاف اور ظلم اور آزادی اور استبداد کی جنگ تھی، ہم حق پر تھے اور ہم نے ایک معقول اصول کی خاطر تلوار اُٹھائی تھی، یہ جنگ آج بظاہر بند ہوچکی ہے ، لیکن درحقیقت اسلام اور کفر اور حق وباطل کی جنگ کبھی بند نہیں ہوتی، ہمارا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہے جو کسی اخلاقی اصول کا پابند نہیں ہے، وہ ایک اژدھا ہے جس کے منہ کو ملک گیری کا خون لگ چکا ہے،ہر مرتبہ ایک نئے قطعۂ زمین کو نگلنے کے بعد اس کی بھوک میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، جنگ بندی کے معاہدے، اقوام متحدہ کی قرار دادیں اور دُنیا بھر کی لعنت وملامت اسے شرم دلانے کے لئے کبھی کافی نہیں ہوئیں، ہم جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے بعد اس کی شرانگیزیوں سے مأمون نہیں ہوئے، اس نے اب تک ہمارے پچاس لاکھ بھائیوں کو غلامی کے شکنجے میں کسا ہوا ہے، جب تک ان پر سے غلامی کی یہ زنجیر یں نہیں کٹ جاتیں ہمیں چین نہیں آسکتا، اور حالات کے تیور یہ بتلاتے ہیں کہ ان زنجیروں کو کاٹنے کے لئے ہمیں ناخن تدبیر کی بجائے نوکِ شمشیر کو کام میں لانا پڑے گا۔
اس لئے ہماری ذمہ داری جنگ بندی کے اس معاہدے پر ختم نہیں ہوجاتی، ہمارے جانباز مجاہدوں میں سے جنہوں نے خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں، اور جنہوں نے ہمیں چین کی نیند سلانے کے لئے آگ اگلتی ہوئی توپوں کے سامنے سینے سپر کئے ہیں، ان کا ہم پر ایک حق ہے، اور وہ حق یہ ہے کہ ہم ان کے خون کے ہر قطے کو اپنے لئے چراغ دِل بنالین اور اس کی روشنی میں اس منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں جس کی جستجو میں ان مقدس شہیدوں نے اپنے سر دھڑ کی بازی لگائی ہے۔ گذشتہ سترہ دِن کی جنگ نے ہمیں اتنے سبق دئیے ہیں کہ وہ پچھلے سترہ سالوں میں بھی حاصل نہیں ہوئے تھے، ان شہیدوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ اس جنگ سے حاصل ہونے والے سبق کو ایک باشعور قوم کی طرح اپنی آئندہ زندگی کی بنیاد بنائیں، اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔
پہلا سبق
اس جنگ کا دیا ہوا سب سے پہلا اور سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا سنگ بنیاد لااِلٰہ اِلا اللہ کا زمزہ بار کلمہ ہے ، جس کا واسطہ دے کر ہمارے صدر محترم نے پشاور سے لے کر سلہٹؔ تک کے ایک ایک فرد کے خون میں حرارت پیدا کردی تھی ، یہی کلمہ ہماری فتح وکامرانی ، ہماری ترقی وسربلندی ہماری خوشحالی وسرفرازی اور ہمارے نظم واتحاد کا راز ہے، ہم اس مقدس کلمے سے جس قدر قریب ہوں گے اسی قدر ہماری قوت وشوکت میں اضافہ ہوگا اور جتنا جتنا اس سے دور ہوں گے اتنے ہی پستی اور زوال سے قریب ہوجائیں گے، ہماری تمام تر عظمتوں کا راز اسلام کی اس شاہراہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں ہمارے آقائے نامدار سرکارِ دوعالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی تھی ، اسی شاہراہ پر چل کر ہم نے باطل کی ہر قوت کو زیر کیا ، اسی شاہراہ پرچل کر ہم نے اس کائنات میں شوکت وعظمت حاصل کی اور عظمت وترقی کی یہی شاہراہ ہمیں افریقہ کے ریگستانوں اور اندلسؔ کے مرغزاروں تک لے گئی۔
ہم اس جنگ کے دوران بار بار اپنے اسلاف کے کارناموں کا حوالہ دیتے رہتے ہیں، ہم کہتے رہے ہیں کہ ہم اُن بزرگوں کی اولاد ہیں جن کی تلواروں کی جھنکار اور تکبیروں کی گونج نے دُنیا کی عظیم طاقتوں کو لرزہ براندام کردیا تھا، ہم بار بار یہ دہراتے رہے ہیں کہ ہم خالد بن ولیدؓ، محمد بن قاسمؒ، محمود غزنویؒ اور احمد شاہ ابدالیؒ کی اولاد ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کی حیرت انگیز فتوحات کا راز بھی یہی مقدّس کلمہ تھا جسے انہوں نے نے اپنی زندگی کے ہر شعبے میں رچا کر دُنیا کی عظیم طاقتوں سے ٹکر لی تھی ، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کی اپنی شہسواری اور بہادری کا لوہا منوایا تھا وہان انہوں نے اپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کی عملی تفسیر بناکر تاریخ کے عظیم کردار بھی پیش کئے تھے جن کی مثال دیکھنے کو آج نگاہیں ترستی ہیں۔
ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ خدا کی جو رحمتیں ان کے شامل حال تھیں ان سے ہم بھی حصہ حاصل کریں تو ہمیں بھی اسی اسلام کی شاہراہ پر چلنا ہوگا جس پر یہ حضرات چلے تھے، اس راستے کو اختیار کئے بغیر ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان اسلاف کا نام لیں اور قدرت نے انہیں اپنے جن انعامات سے سرفراز کیا تھا ان کی توقع رکھیں۔
موجودہ جنگ میں اللہ نے ہماری سابقہ بداعمالیوں کے باوجود ہم پر اپنے فضل وکرم کی جو بارش فرمائی ہے وہ ہمیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ کرے، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت تھی، لیکن یاد رکھئے کہ قدرت کسی ناشکر گذار قوم کو بار بار اپنے انعامات سے سرفراز نہیں کرتی، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خدا کی یہ رحمت ہم پر برابر متوجہ رہے تو ہمیں اس نعمت پر شکر ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی کو یکسر بدلنا ہوگا، ہمیں اپنی زندگی کے ہر شعبے میں وہ خوشگوار انقلاب لانا ہوگا جو ہمیں خدا کی مزید رحمتوں کا مستحق بنادے۔
اس مٰن کوئی شک نہیں کہ ان سترہ دِنوں میں پوری قوم کے اندر ایک ایسا دینی جذبہ بیدار ہوگیا تھا جو شاید ہماری اٹھارہ سالہ تاریخ میں اپنی مثال آپ تھا، اس دوران خدا کی طرف ہمارا رجوع بڑھا، ہماری تمام دینی اور اخلاقی صفات نے حیرت انگیز ترقی کی، رقص وموسیقی کے مراکز ویران ہوگئے، فحاشی اور عریانی میں کمی آئی ، تاجروں نے نہ صرف یہ کہ چور بازاری ، گراں فروشی اور بد دیانتی سے توبہ کرلی، بلکہ تقابل تعریف ایثار سے کام لیا، سرکاری دفاتر میں رشوت ستانی اور کام چوری ختم ہوگئی، اور ہر فرد اپنے فرائض کو دل وجان سے ادا کرنے میں منہمک نظر آنے لگا۔ جو ریڈیو صبح سے شام تک فلمی گیت سنایا کرتا تھا ،اب اس پر اللہ اور رسولؐ کا نام اور مجاہدوں کے تذکرے سنائی دینے لگے، غرض ہمارے ہر شعبۂ زندگی میں ایک نمایاں دینی تبدیلی پیدا ہوئی یہ سراسر اس جہاد کی برکت تھی جس کی ایک رات کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستّر سالہ عبادت سے افضل قرار دیا ہے۔
لیکن اب ہمارا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ ہم اس دینی جذبے کو پروان چڑھانے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں، اور جہد وعمل کی جس مقدّس راہ پر ہم نے قدم بڑھایا ہے اس پر آگے بڑھتے چلے جائیں، ایسا نہ ہو کہ یہ مقدس جذبہ جسے بم کے دھماکوں اور توپوں کی گھن گرج نے بیدار کیا ہے، طاؤس ورباب کی قانون میں کھوجائے۔
ہمیں یہ سمجھا چاہئے کہ ہم نے اپنی زندگی کے ایک بالکل نئے دور میں قدم رکھا ہے، اور ہماری پچھلی تمام برائیاں جہاد کی بھٹی میں سلگ کر ختم ہوچکی ہیں، اب ہمیں یہ چاہئے کہ اپنے ایک ایک فعل پر نظر ثانی کریں اور یہ دیکھیں کہ ان میں سے کوئی کام اس خدا کی مرضی کے خلاف تو نہیں ہو رہا جس سے ہم فتح ونصرت کی امید رکھتے ہیں۔
یہ ایک اہم ترین سبق ہے جو ہمیں اس جنگ نے دیا ہے اور اگر ہم نے ایک باشعور قوم کی طرح اس درس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی زندگی کے فرسودہ ڈھانچے کو بدل ڈالا تو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انشا ء اللہ زندگی کے ہر مرحلے پر ہم فتح ونصرت سے ہمکنار ہوں گے، جس منزل کی طرف ہم نے قدم بڑھایا ہے وہ ہمیں مل کر رہے گی اور ہم ترقی کی منزلوں کو تیز رفتاری سے طے کرسکیں گے اور اس سے اُ ن شہیدوں کی روحوں کو قرار آئے گا جنہوں نے اپنے خون سے اس ملک کی آبیاری کی ہے، خدا کا ہم سے یہ وعدہ ہے کہ :

کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

دوسرا سبق
اس جنگ نے ہمیں دوسرا سبق یہ دیا ہے کہ ہماری کامیابی وکامرانی ہمارے قومی اتحاد میں مضمر ہے، بلاخوف ِتردید کہا جاسکتا ہے کہ ہماری فتح کا ایک بہت بڑا سبب وہ اتّحاد بھی تھا جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عنایت سے ہم میں پیدا کردیا تھا، اس سے پہلے ہماری ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہمارا انتشار افتراق اور آپس کی خانہ جنگیاں تھیِ اس موقع پر ہمارے اتّحاد نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم متحد ہوکر ہر بڑے سے بڑے خطرے کا مقابلہ کرسکتے ہیں، ہمارا یہ جذبۂ اتحاد جس نے ان سترہ دنوں میں ہمیں ایک سیسہ پلائی ہوائی دیوار بنادیا تھا ، ہماری ایک بہت بڑی قومی ضرورت ہے ، اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس جذبے کو فروغ دیکر ان تمام صوبائی عصبیتوں کو کچل ڈالنا ہوگا جو ماضی میں ہمارے ملی انتشار کا سامانپیدا کرچکی ہیں، ہمیں سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان اور بنگالی کے ہر فرق کو مٹاکر ایک ہی جھنڈے کے نیچے جمع ہونا ہے ، اور جب تک عصبیت کے یہ بُت پاش پاش نہیں ہوجاتے ہماری اجتماعی فلاح ناممکن ہے، ہم ایک خدا ، ایک رسولؐ، ایک کتاب اور ایک کعبے کے نام لیوا ہیں، ہم اس دین کے پیرو ہیں جس نے رنگ ، نسل اور وطن کے بتوں کو توڑ کر ہمیں یہ دعوت دی ہے کہ ع

اسلام ترادیس ہے، تو مصطفویؐ ہے

ہم اس رسول عربیؐ کے غلام ہیں جس نے حق کی خاطر اپنے ہم وطن ابوجہلؔ اور ابولہبؔ کے خلاف تلوار اٹھاکر حبشہ کے بلالؓ، روم کے صھیبؓ اور فارس کے سلمانؓ کو گلے سے لگایا تھا، ہم سب ایک ہیں اور کوئی نسلی یا جغرافیائی حد ہمیں جدا نہیں کرسکتی۔
اس لئے اس جنگ کے بعد ہم پر دوسرا فریضہ یہ عائد ہوتا ہے کہ اتّحاد کی اس حسین فضا کو قائم رکھنے کا عہد کریں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہوگئی ہے اور آئندہ کسی صوبائی امتیاز کو ابھرنے کا موقعہ نہ دیں۔
تیسرا سبق
اس جنگ نے ہمیں تیسرا سبق یہ دیا ہے کہ اب تک ہم زندگی کے صرف ایک رُخ سے آشنا تھے، پچھلے اٹھارہ سال میں ہم نے یہ فرض کرلیا تھا کہ ہمیں ہمیشہ امن کی زندگی گذارنی ہے، معاشرے میں ایسی بیشمار رسمیں پھوٹ پڑی تھیں جو سوائے تضیع اوقات ، فضول خرچی اور راحت پسندی پیدا کرنے کے کوئی خدمت انجام نہیں دے سکیں، ہم اپنے ملک کی تعمیر وترقی کی طرف ہمہ تن متوجہ رہنے کے بجائے کچھ ایسی سرگرمیوں میں الجھ گئے تھے جو ایک ترقی پذیر قوم کے لئے مہلک ہیں، جو قوم اپنی عمر کی ابتدائی منزلیں طے کررہی ہو اسے یہ کب زیب دیتا ہے کہ وہ سادگی کے بجائے ظاہری زیب وزینت اور آرام طلبی کے کاموں کو فروغ دے؟ اور جفاکشی کے بجائے عیش وآرام کو اختیار کرے؟ اس جنگ نے ہمیں یہ سبق بھی دیا ہے کہ جو رقمیں ہم شادی غمی کی تقریبات میں فضول کاموں کے لئے خرچ کرتے تھے وہ قومی دفاعی فنڈ میں بھی دے سکتے ہیں، قوم کی جو دولت محض ظاہری آرائش وزیبائش پر صرف ہوتی ہے ، ہم اس سے ملک کی صنعتوں کو فروغ دینے اور دفاع کو مضبوط تر بنانے کا کام بھی لے سکتے ہیں، اگر ہم ایثار ، قربانی، جفا کشی اور سادگی کو اختیار کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آج ہمارے کارخانوں میں جدید قسم کے ترقی یافتہ اسلحہ نہ بن سکیں،
ہمیں بھارتؔ جیسے مکّار اور کمینہ خصلت دشمن کا مقابلہ ہے جس کے لئے ہمیں اپنے اندر ایک ایسے ہی اجتماعی شعور کو پروان چڑھانا ہوگا جو موجودہ جنگ میں پیدا ہوگیا تھا اور اس شعور کے تحت اپنی تمام دلچسپیوں اور کاوشوں کا محور اس ملک کی تعمیر وترقی اور قوت وخوشحالی کو بنانا پڑے گا جو ہمارے ہاتھ میں خدا کی امانت ہے، ہم میں یہ جذبہ پیدا ہونا چاہئے کہ ہم اپنی تمام فضول خرچیوں اور سامانِ عیش کو چھوڑ کر سادہ معاشرت اختیار کریں گے اور اس مغربی طرزِ زندگی کو یکسر ترک کردیں گے جو ہمارے لئے انتہائی مہنگا بھی ہے اور ہمارے ملّی وقار کے منافی بھی ، ہمارے سامنے ایسے کئی ملکوں کی مثال ہے جنہوں نے کم وبیش ہمارے ساتھ ساتھ آزادی حاصل کی تھی اور ان اٹھارہ سالوں میں وہ ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل چکے ہیں، چینؔ اور جاپانؔنے ایک مختصر مدّت میں صنعت وتجارت میں جو ترقی کی ہے اس کا راز اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے سادہ طرزِ زندگی کو اپنا کر محنت ومشقت اور جفا کشی کی عادت ڈالی ہے۔
ہمیں کسی لمحے اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ ہم ایک ایسے ملک کے افراد ہیں جو اپنی عمر کی ابتدائی منزلیں طے کررہا ہے، یہ عمر عیش اورآرام کی نہیں، محنت اور جفا کشی کی ہے، ہم خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے ہمیں ایک اسلامی ملک کی تعمیر کے منتخب کیا ہے، اور ہمیں ’’ تقدیر امم ‘‘ کے اس فیصلے کو ہر آن سامنے رکھنا چاہئے ، ع

شمشیر وسنان اوّل طاؤس ورباب آخر

چوتھا سبق
چونکہ اس جنگ سے زندگی کا ایک بالکل نیا رُخ ہمارے سامنے آیا ہے،اس لئے اب ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی میں ایک ایسا مرحلہ بھی آسکتا ہے جوانسان کو اپنی عیش وآرام کی مجلسیں چھوڑ کر ہتھیار اٹھانے پڑتے ہیں، اور گھر کی راحتوں کو خیر باد کہہ کر آگے اور خون کے سمندر میں نہانا پڑتا ہے، اس موقعہ کے لئے ہمیں پہلے سے تیّار رہنا چاہئے، ہم میں سے ہر فرد کو یہ دھن لگ جانی چاہئے کہ وہ فوجی تربیت حاصل کرکے ایک سپاہی بن جائے اور ضرورت پڑنے پر ملک وقوم کی خدمت کرسکے۔ قرآنِ کریم نے ہمیں اس کے زمانے کے لئے بھی یہ واضح ہدایت دی ہے کہ:

} وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ {
اور ان (دشمنوں) کے لئے جو قوّت تم حاصل کرسکتے ہو اسے تیار کرو۔

ہم نے اپنی امن پسندی کی وجہ سے اس فریضے سے غفلت برتی ہے، لیکن موجودہ جنگ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب اس فرض کو بجالانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
پانچواں سبق
اس جنگ سے ہمیں پانچواں فائدہ یہ پہنچا ہے کہ ہمیں اپنے دوست اور دشمن کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے ، ہم نے اپنے اٹھارہ سال جن قوموں پرغیر معمولی اعتماد کرکے گذارے ہیں انہو ں نے اس موقع پر انتہائی خود غرضی اور مکاری کا ثبوت دیا ہے، یہ جنگ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم آئندہ کسی دوسرے پر غیر معمولی اعتماد کرنے کے بجائے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی فکر کریں ، دوسری قوموں سے دوستانہ تعلقات رکھنا بہت اچھی بات ہے، لیکن ان پر اعتماد کرکے اپنے آپ سے غافل ہوجانا ایک ایسی غلطی ہے جو آج کی خود غرضی دُنیا میں قابل معافی نہیں۔
پاکستان کی تعمیر ہم میں سے ایک ایک فرد کی ذمّہ داری ہے اور اس ذمّہ داری سے عہدہ برآہونے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو سپاہی بننا ہے، جنگ کے بعد ہمیں جو وقفہ ملا ہے ہم اسے صلح حدیبیّہ کے وقفے کی طرح کار آمد بناسکتے ہیں کہ اپنی سابقہ غلطیوں کا ازالہ کرکے ہم میں سے ہر ایک ملک وملّت کا ایک سپاہی بن جائے، اور وقت پڑنے پر اس کے کا م آسکے، ہماری جنگ اس فتح پر ختم نہیں ہوئی ، کشمیرؔ کی وادیاں اب تک کسی قافلہ سالار کا انتظار کررہی ہیں۔
یہ ہماری جدّ وجہد کے تیز ہونے کا وقت ہے، اور اگر موجودہ فتح سے مطمئن ہو کر ہم نے اس وقت کو گنوادیا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے تو آئندہ یہ موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہم اس صورت میں خدا کے سامنے بھی مجرم ہوں گے اور ان شہیدوں کے سامنے بھی ہمیں شر مسار ہونا پڑے گا جنہوں نے اپنے خون سے پاکستان کی تاریخ کا یہ حسین باب لکھا ہے۔
قدرت نے اس جنگ کے دوران ہم پر جن انعامات کی بارش کی ہے ان کا شکر ادا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا عہد کریں کہ آج سے ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے، اُس زندگی کا جو صرف اپنے لئے نہیں ، بلکہ خدا کے لئے اور ملک وقوم کے لئے ہوگی، اُس زندگی کا جو عیش وآرام کے بجائے رضائے خدا وندی کی طلبگار ہوگی، اور اس زندگی کا جو ہمیں خدا کے مزید انعامات کا مستحق بنائے گی ۔ یاد رکھئے! خدا کا وعدہ ہے:

} لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ {
اگر تم شکر کروگے تو میں تم پر انعامات میں اضافہ کروں گا اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔

اگر اللہ کی نعمتوں کا ہم نے اس طرح شکر ادا کیا تو ایک بار پھر ہم اپنے اسلاف کی عظمتوں کو تازہ کرسکیں گے اور اگر خدا نخواستہ اس موقع کو گنواکر ہم ناشکری پر اُتر آئے تو اس کے انجام کا تصور بھی بڑا ہولناک ہے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اس فتح پر صحیح طریقے سے شکر ادا کرنے اور اپنی رضا کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق بخشے، اور ہمیں اپنے اسلاف کاسا عزم وحوصلہ اور ان کا سا بلند کردار عطا فرمائے ، آمین

وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین

محمد تقی عثمانی
دارالعلوم کراچی نمبر۳۰
۴؍اکتوبر ۱۹۶۵ء